پھل
درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ بیر کے درخت سے فالسے نکل آئیں، یا آم کے درخت میں سیب آجائیں۔
تو ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے دن اور رات ایک ہو جائیں؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ہمارے اندر تو آخرت کا یقین ہو اور ان کے اندر نہ ہو اور پھر بھی انتظار دونوں کو نئی فلم کا ہو، آخرت کا نہ ہو! ہم کہاں ایسی زندگی گزارنے لگے کہ ہفتے کے پانچ دن حلال جانوروں کی طرح کام کیا اور باقی دو دن حرام جانوروں کی طرح تفریح۔ یعنی انسان بننا ممکن ہی نہیں؟ اگر ان کی زندگی کا محور تفریح ہے تو ان کے پاس یہ ‘یقین’ ہے کہ اس عالم کے بعد کچھ نہیں۔ ہمارے پاس کیا یقین ہے؟ نئی سے نئی فلم دیکھنے کی دوڑ میں ہم کہاں شامل ہو سکتے ہیں؟ ایک میچ سے دوسرا میچ، ایک سیریز سے دوسری سیریز؟
ہمارے پاس بزعم خود وہ ‘کتاب زندہ’ ہے جو اس دنیا کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ تو ہماری اپنی کایا کیوں نہیں پلٹ رہی؟
جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے تو ہم سب کے سب ایک ہڑبونگ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تو تو میں میں کا ایک لا متناہی سلسلہ ہوتا ہے جو مصیبت سے بڑھ کر مصیبت ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم وہ لوگ جن کو ان کے ماں باپ یا بہن بھائیوں نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے پڑھا لکھا کر اس قابل بنایا کہ وہ اس دنیا کو اس سے بہتر جگہ بنائیں، ہم نے بھی اپنی زندگی کو ویک ڈے اور ویک اینڈ میں بانٹ لیا ہے۔ کوئی ایک مفید بات، کوئی تعمیری کام، کوئی مثبت سوچ ہمارے پاس کیوں اپنا گھر نہیں بناتی؟ خدارا میں تفریح کے خلاف نہیں،میں خود تفریح کرتا ہوں تو اس کی مخالفت کیسے کروں؟ مجھے بس کوفت اس بات سے ہوتی ہے کہ جب اٹھارہ بیس سال تعلیم پائے لوگوں کے سامنے بھی زندگی محض ایک ویک اینڈ سے دوسرے کا سفر رہ جاتی ہے تو اس معاشرے میں واقعی سدھار بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
امید کی بات مگر یہ ہے کہ دل کی زمین میں بیج کسی بھی وقت بویا جا سکتا ہے۔ ہر دل میں اپنا ہی ایک موسم ہوتا ہے۔ اور ہر دل اپنے خاص طریقے سے ہی بیجوں کی افزائش کرتا ہے۔ دلوں میں قرآن کا ہل چلائیں، دعاؤں کی بارش کریں، ایمان کا بیج ان شاء اللہ ضرور اگتا ہے۔ اور اس کا پھل ایسے دن رات نہیں ہوتے جیسے آج کل ہمارے ہیں۔
قبولیت!-
زمانہ جاہلیت میں بھی عرب میں کچھ چیزوں کی حرمت مسلّم تھی جیسے حرمت والے مہینے، مہمان اور وعدہ و عہد ۔ بیت اللہ ان حرمت والی چیزوں میں سے غالباً واحد عمارت تھی۔ الرحیق المختوم کے مطابق رسول اللہؐ کی عمر مبارک کا پینتیسواں (35) سال تھا کہ قریش نے بیت اللہ کی تعمیر نو کا ارادہ کیا۔ اس ارادے کے پیچھے جو بھی مقاصد ان کے ہوں اس کے لیئے جو فیصلہ انہوں نے کیا وہ یہ تھا کہ اللہ کے اس گھر کی تعمیر میں اپنی حرام کمائیوں میں سے ایک پیسہ بھی شامل نہیں کریں گے۔ چنانچہ طوائفوں کا مال، سود اور کسی سے ناحق چھینا ہوا مال اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ بالآخر خانہ کعبہ کی تعمیر جب شروع ہوئی تو پتہ چلا کہ مال کم پڑ گیا ہے اورچوتھی طرف کی دیوار بن نہیں سکے گی تو ان ‘مشرکوں’ نے اس چوتھی جگہ کی لمبائی کم کر کے آخر میں ایک چھوٹی دیوار اٹھا دی۔ اس دیوار کو ہم حطیم کے نام سے جانتے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ جاہل عرب بدو جن کے سامنے زندگی کا کوئی اعلیٰ مقصد، کوئی منزل، کوئی آخرت کا شوق کچھ بھی نہیں تھا، وہ تو اللہ کے لیئے کیئے گئے کام میں حرام کی آمیزش نہ کریں چاہے بقیہ عرب میں ہنسی اڑ جائے کہ ان سے کعبہ کی تعمیر بھی نہ ہو سکی۔ اور ہم جن کے لیئے ‘تھیوری’ میں اصل زندگی آخرت کی ہے، وہ نمازیں بھی پڑھیں مگر ساتھ ہی سود بھی کھائیں کھلائیں، اسی مال سے زکوٰۃ بھی دیں اور صدقات بھی۔ قرآن کھول کر نہ دیکھیں اور حدیث کو نہ سنیں کہ دیکھ یا سن لیا تو عمل واجب ہو جائے گا۔
ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی بری عادت میں ملوث ہے۔ کسی کو جھوٹ بولنے کی عادت ہے، کسی کو وعدہ خلافی کی، کسی کو امانت کے مطلب ہی نہیں پتہ تو کوئی سود خوری میں ملوث ہے، کوئی بے پردگی کو اپنا تکیہ بنائے بیٹھا ہے تو کوئی غیبت اور چغلیاں ہی کرتا بیٹھا رہتا ہے۔
خوشخبری یہ ہے کہ ہماری مدد کے لیے اللہ نے رمضان کو ایک دفعہ پھر بھیج دیا ہے۔ شیاطین جن قید کر دئیے جائیں گے۔ ہر طرف قرآن اور حدیث کی آوازیں آرہی ہونگی۔ دیکھا جائے تو یہ مقابلہ برابر کا نہیں ہے۔ اللہ نے ہمارے نفس کو تنہا کردیا ہے کہ اس کی مدد کے لیئے اب کوئی نہیں آئے گا۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس دفعہ بھی اپنے نفس کے لیئے عذر تلاش کرتے ہیں یا اس دفعہ ہم اپنے آپ کو اس غلاظت سے نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس کا نام گناہ کبیرہ ہے۔
اللہ کو نہ ہمارا بھوکا رہنا کوئی فائدہ دے سکتا ہے۔ نہ مال خرچ کرنا اس کی سلطنت میں کوئی اضافہ کر سکتا ہے جو بھی نیکی کرے گا اپنے بھلے کے لیئے کرے گا، جو بھی برائی کرے گا اپنا نقصان کرے گا۔
اور قریش کے اس عمل سے ایک چیز جو مجھے دیکھنے کو ملی وہ یہ کہ جب حجر اسود کو نصب کرنے کا وقت آیا تو اللہ نے اپنے نبیؐ کے ہی دست مبارک سے اس کام کو انجام دلوایا۔ کیا پتہ ہمیں بھی اپنے اعمال کی ایسی ہی قبولیت نصیب ہو جائے !!! آمین!
اور وہ رخصت ہو گئی
جویریہ چلی گئی! ساڑھے چار سال تک جس فون کال سے میں ڈرتا رہا، جب وہ آئی تو میں اس سے اسی طرح بے خبر تھا جیسے انسان اپنی موت سے بے خبر ہوتا ہے۔ جویریہ میری بیٹی تھی۔ ساڑھے چار سال کی میری ننھی سی پیاری سی گڑیا۔ جسے جن ہاتھوں سے اٹھا کر میں گھر میں لایا تھا، انہی ہاتھوں سے اس کو قبر میں اتارنا پڑا۔ لیکن یہ مضمون اس لیے نہیں لکھ رہا کہ مجھے نعوذ باللہ اپنی تقدیر پر کوئی گلہ ہے، یا ہمدردیاں سمیٹنا مقصود ہے۔ الحمدللہ اللہ نے لوگوں کے دل ہمارے لیے اتنے نرم کردئیے ہیں کہ ہم سے تو یہی محبت نہیں سنبھالی جا رہی۔ یہ مضمون صرف ان ساڑھے چار سالوں کی ایک چھوٹی سی کہانی ہے، جن میں میں نے اور جویریہ کی ماں نے کئی زندگیاں گذار لیں۔ جو بوجھ کئی مہینے سے میرے دل پر ہے اس کو کاغذ پر منتقل کرلینے سے شاید میرے دل کو کچھ قرار آ جائے اور شاید میں ان لوگوں کا شکریہ ادا کر سکوں جن سے تشکر کا اظہار کرنا مجھ پر قرض ہے۔
جویریہ کو پیدائشی طور پر سانس کی تکلیف تھی ۔ پیدائش کے وقت پھیپھڑوں میں پانی بھر جانے کی وجہ سے اس کو پیدائش کے فوراً بعد ہی انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رکھنا پڑا۔ وہیں ہم پر یہ عقدہ کھلا کہ گائناکالوجسٹ کی غفلت کی وجہ سے یہ کیس اتنا خراب ہوا ورنہ اس کو بہتر طریقے سے ہینڈل کیا جا سکتا تھا۔ بہرحال، اس دوران ہمارا تعارف ڈاکٹر فریدہ سے ہوا ،جو ہر لحاظ سے بچوں کی ایک بہت اچھی ڈاکٹر ہیں۔ جویریہ کے نقوش پیدائش کے وقت عام پاکستانی بچوں سے مختلف تھے، کچھ چینی سے نقوش تھے۔ دبی ہوئی ناک، انتہائی گورا رنگ، تھوڑی باہر کو نکلی ہوئی آنکھیں ۔ ڈاکٹر فریدہ نے ہمیں یقین دلایا کہ جویریہ ایک ‘نارمل’ بچی ہے اور یہ کہ یہ تھوڑا سا عرصہ اس کو مشکل میں گذارنا پڑے گا۔ ایک پورا ہفتہ ہم اولاد کی نعمت مل جانے کے باوجود ایسے گذارتے رہے جیسے کسی کا حج کا ٹکٹ اور ویزہ سب لگا ہو اور جہاز چلنے بند ہو جائیں۔ جو والدین اس طرح کی کیفیت سے گزر چکے ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔
ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد جب اس کو گھر لے کر آئے تو مستقل طور پر اس کی سانس لینے کی آواز سے ہم پریشان ہوتے تھے۔ اس کیفیت کو ‘اسٹرائیڈر’ کہتے ہیں اور یہ عمر کے ساتھ ساتھ بہتر ہو جاتی ہے۔ کہیں جاتے آتے تو لوگ مڑ مڑ کر دیکھتے تھے کہ یہ لوگ اس ‘بیمار’ بچی کے ساتھ کہاں آگئے۔ اس کیفیت میں ہم مختلف ڈاکٹروں کے چکر لگاتے رہے، کوئی ڈاکٹر جو ہمارے سوالوں کا جواب دے دے۔ کافی ڈاکٹروں کے چکر لگانے کے بعد، جن میں کراچی کے نامور سرجن اور بچوں کے مشہور ڈاکٹر بھی شامل ہیں، ہماری ملاقات ریحان بھائی سے ہوئی۔ انہوں نے جویریہ کا اچھی طرح معائنہ کرنے کے بعد ہمیں بتایا کہ یہ کسی صورت ڈاؤنز کا کیس نہیں ہے۔ (ڈاؤنز کے بارے میں آگے بات آ رہی ہے)۔ مزید تشفی کے لیے انہوں نے ہمیں اس کا کروموسوم کا ٹیسٹ کرانے کہا جو کہ بعد میں نارمل آیا۔ ڈاکٹر فریدہ اور ڈاکٹر ریحان، وہ دو لوگ ہیں جنہوں نے ہماری ہر اس طرح سے مدد کی جس طرح کوئی ڈاکٹر کر سکتا ہے، ریحان بھائی نے تو اس سے بھی زیادہ۔ دونوں ہماری باتوں کو توجہ سے سنتے تھے۔ خاصا وقت دیتے تھے۔ اگر ہم کوئی سوال کرتے تھے تو اس کا جواب اچھی طرح دیتے تھے ، ٹالتے نہیں تھے۔ جویریہ کی پوری زندگی میں ہم ان دو افراد کے ساتھ کافی وابستہ رہے اور ان دونوں کے اس ہمدردانہ رویہ کی وجہ سے ہمارا دل ڈاکٹروں کی طرف سے کافی صاف رہا۔ دو سال کی عمر تک جویریہ کئی دفعہ ہسپتال میں رہی، ایک دفعہ آئی سی یو بھی ہو کر آئی۔ تاہم اس دوران ہم لوگ کافی حد تک اس کے ساتھ زندگی گذارنے کے عادی ہو گئے تھے۔ ہمارے گھر میں کئی طرح کی مشینیں آگئیں۔ ایک سکشن مشین بھی لی گئی جس کا استعمال یہ تھا کہ بچی کے حلق میں ایک نالی ڈال کر بلغم کو کھینچ کر باہر نکالنا ہوتا تھا۔ یہ ایک صبر آزما کام تھا اور مجھ سا ڈھیٹ بھی یہ کام کرنے سے گھبراتا تھا، لیکن میری اہلیہ نے اس موقع پر بھی مجھ سے بڑھ کر ہمت دکھائی اور کئی دن تک وہ یہ کام دن میں متعدد دفعہ کرتی رہیں۔
زندگی پھر کبھی ویسی نہ رہی۔ ہمارے معمولات کافی تبدیل ہو چکے تھے۔ آنا جانا ، ملنا ملانا کافی حد تک کم ہو گیا تھا۔ کسی تقریب میں جانے سے قبل پہلے ہمیں دیکھنا پڑتا تھا کہ تقریب کتنی دیر کی ہے، کس کی ہے، کیا وہاں سردی ہوگی، کیا ہوا ہو گی، کیا ہم تقریب درمیان میں چھوڑ کر آسکیں گے۔ غرض ہماری ، خاص طور پر میری اہلیہ کی، تفریح اور آرام مکمل طور پر جویریہ کی صحت اور طبعیت کے تابع ہو گئے۔ ہم کہیں جاتے تھے تو باہر کے گرد و غبار اور شور دھوئیں کی وجہ سے اے سی چلاتے تھے، لیکن چونکہ جویریہ کو خنکی سے بھی مسئلہ ہوتا تھا ، چنانچہ میری بیگم کو اسے گود میں لے کر پیچھے بیٹھنا پڑتا تھا۔ ناواقف سمجھتے کہ شاید ہماری ناراضگی اتنی بڑھ گئی ہے کہ ہم ساتھ نہیں بیٹھتے ، اور واقف سمجھتے کہ میں اپنی قدامت پسندی کی وجہ سے ایسا کرتا ہوں۔ ہم نے چاول کھانا تقریباً بند کردئیے اور کھاتے بھی تھے تو اس سے چھپ کر کیونکہ چاول اس کے لیے ناموزوں تھے اور یہ چاولوں کی عاشق۔
پھر جویریہ کی زندگی کا سنہرا دور آیا، اور یہ وہ دور ہے جس کی یادیں میرے دل میں نقش ہیں۔ اس میں وہ ہنستی ہے، ہنساتی ہے، پیار کرتی ہے، ناز اٹھواتی ہے، نخرے دکھاتی ہے۔ یہ وہ دور ہے جب میں نے اس کے لیے کراچی کے مہنگے سے مہنگے کپڑے لا کر دیے۔ جب ہم لوگ باہر کھانا کھانے جاتے تھے اور جویریہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر دونوں اگلی سیٹوں کے بیچ میں کھڑی ہوجاتی اور پورے راستے سونے کا نام نہ لیتی۔ جب اس کی شرارتوں سے تنگ آکر میں کہہ دیتا کہ میں اب کھانا کھانے باہر نہیں جاؤں گا۔ اور کچھ دن بعد ہم پھر نکل کھڑے ہوتے۔ اس وقت میں بھی ہم کو اس کی نگہداشت کرنی تو پڑتی تھی لیکن نسبتاً کم۔ اس کی سانس کی آواز اب بھی آتی تھی لیکن صرف کسی نئے بندہ کو کہ ہم تو عادی ہو گئے تھے۔ غرض اس نے کافی حد تک اپنی پیدائشی کمزوری پر قابو پا لیا تھا۔ اسی دوران ہم نے اس کی اسکولنگ، بلکہ صحیح معنوں میں ، ہوم اسکولنگ شروع کرا دی جہاں اس کا خیال اور بھی زیادہ رکھا جانے لگا۔ ساتھ ساتھ اس کو نیبولائز کرنا پڑتا تھا لیکن کبھی کبھار۔
جب وہ تین سال کی ہوئی تو اس کی ماں ، جو گزشتہ ایک سال سے مجھے مستقل کہے جا رہی تھی، نے مجھے مجبور کیا کہ میں اس کا چیک اپ کرواؤں کہ وہ بولتی کیوں نہیں۔ میں ٹالتا رہا کہ بچے کبھی کبھار پانچ سال تک بھی نہیں بولتے لیکن اس کا اصرار بڑھتا گیا۔ ہمیں اس کا سماعت کا ٹیسٹ کرانے کا کہا گیا۔ اور جب رزلٹ آیا تو میرے پیروں کے نیچے کی زمین نکل گئی۔ رپورٹ میں درج تھا کہ اس کی سماعت ایک کان سے ہوتی ہی نہیں اور دوسرے کان سے کم ہے۔ ایک اور جگہ یہی ٹیسٹ کرایا تو وہ پہلے سے بھی عجیب آیا کہ اس میں دونوں کانوں میں محض بیس فیصد سماعت ثابت ہوئی تھی۔ ہمارے لیے یہ حیرت کی بات یوں تھی کہ ہم نے کبھی اس طرح کا معاملہ محسوس نہیں کیا تھا۔ وہ میرے ساتھ ساری نظموں پر ایکشن کرتی تھی اور اس سے پہلے کبھی مجھے یہ شک نہیں ہوا تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ ہم نے، بلکہ اگر صحیح کہا جائے تو میں نے، اس وقت ایک فیصلہ یہ کیا کہ فی الحال اس کو سماعت کا آلہ نہیں لگائیں گے، کیونکہ اس ٹیسٹ کا ایک مسئلہ یہ تھا کہ اس میں نزلہ کی کیفیت بالکل نہیں ہونی چاہیے اور جویریہ کا تو مسئلہ ہی دائمی نزلہ کا تھا۔ تو میں نے اپنے مشاہدے کو بنیاد بنا کر اس کو آلہ نہیں لگایا۔ ہم نے جویریہ کی زبان کی بندش کو کھولنے کے لیے اس کی اسپیچ تھراپی کرانی شروع کی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں میں نے اپنی زندگی کے چند با ہمت ترین لوگوں کو دیکھا۔
انسانی جسم کے ہر خلیہ یعنی سیل میں 46 کروموسوم ہوتے ہیں۔ یہ کروموسوم جوڑوں کی شکل میں ہوتے ہیں اور ان کروموسوم میں انسان کے جسم کے متعلق انتہائی اہم اور بنیادی معلومات ہوتی ہیں۔ ان 23 جوڑوں میں سے اکیسواں کروموسوم جوڑا اگر ذرا سا بھی بگڑ جائے یعنی اس میں کروموسوم دو سے زیادہ ہو جائیں تو اس سے جو کیفیت پیدا ہوتی ہے اس کو ‘ڈاؤنز سنڈروم’ (Down’s Syndrome) کہتے ہیں۔ ڈاؤنز بچے بہت پیارے ہوتے ہیں اور ان میں کافی بچے بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو کافی سنبھال لیتے ہیں لیکن ان کے لیے ایک آزادانہ زندگی گذارنا ایک چیلنج ہوتا ہے۔
ہم جویریہ کو پہلے شہید ملت روڈپر واقع ایک میموریل سینٹرلے جاتے تھے ، پھر اس کو گلشن میں واقع ایک خصوصی تعلیم کے اسکول میں لےجانے لگے۔ دونوں جگہ کافی لوگ اپنے بچوں کو اسپیچ تھراپی کے لیے لے کر آتے تھے۔ اور ان میں سے کچھ بچے ڈاؤنز ہوتے تھے۔ ایک پیاری سی بچی وہاں آتی تھی جو کہ ڈاؤنز تھی۔ بہت صاف ستھری، بالکل گڑیا جیسی، اس کی ماں اس کو آہستہ آہستہ سہلاتی رہتی۔ کئی دفعہ وہ ماں سے ناراض ہو جاتی لیکن ماں اس کو کچھ کہتی نہیں تھی۔ صرف ایک نہیں، کئی لوگ تھے، ہمت اور سطوت کے پہاڑ۔ جو ایسی زندگیاں گذار رہے ہیں جن کا اکثر لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ آپ کو اگر لگتا ہے کہ آپ کے بیٹے کا رنگ کم ہے تو جا کر کسی ایسے گھر میں تھوڑی دیر بیٹھ آئیے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ بے اولاد ہونے کی وجہ سے آپ کے ساتھ کوئی ظلم ہو رہا ہے تو پہلے اولاد کے دکھ کو سمجھنے کی کوشش کر کے دیکھ لیں۔ اگر آپ کا کوئی رشتہ دار یا دوست ٹائم پر نہیں آرہا اور اس کے گھر میں کوئی بچہ ہے جو عام بچوں سے مختلف ہے تو ان کو شک کا فائدہ ضرور دے دیں کہ کئی دفعہ محض باتھ روم لے جانا اور کپڑے تبدیل کرانا ہی بہت بڑا چیلنج ہو جاتا ہے۔ ایسے والدین کو دیکھ کر ، ان سے بات کر کے، ان کی ہمت دیکھ کر، اپنی چھوٹی سی تکلیف کوئی تکلیف ہی نہیں لگتی تھی۔ ان لوگوں کے سامنے ہم اپنے آپ کو ناشکرے بونے تصور کرتے تھے۔ ان سب کے علاوہ ایک اور بھی ہستی تھی جس کو دیکھ کر ہماری ہمت اور بڑھتی تھی اور وہ تھی خود ہماری بیٹی۔
مجھے یاد نہیں پڑتا کہ اپنی پوری زندگی میں جویریہ نے کبھی کھل کر سانس لی ہو۔ کوئی دن ایسا مجھے تو یاد نہیں ، جب میں نے اس کی سانس کی آواز نہ سنی ہو۔ اس کو کھانسی اکثر رہتی تھی۔ لیکن اس کے باوجود اس کو ہنسنا آتا تھا۔ خوش رہنا آتا تھا۔ خوش کرنا آتا تھا۔ ہر ملنے والے سے ہنس کر ملنا اور ملنے والے کو مسکرانے پر مجبور کر دینا یہ اس کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں لگتا تھا۔ وہ مجھے یا اپنی ماں کو اداس نہیں دیکھ سکتی تھی۔ وہ ہمیں فارغ بھی نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اس کو پڑھنے کا بہت شوق تھا اور ہمارے گھر کے در و دیوار اس کی نوٹ بک بن چکے تھے ۔ کہیں ڈرائنگ کی مشق تو کہیں گنتی کی۔ چھوٹے بھائی کے ساتھ اس کا رویہ ویسا ہی تھا جیسا سب بڑی بہنوں کا ہوتا ہے، دشمنی بھری دوستی!
جویریہ کی وجہ سے ہم نے کچھ انتہائی سطحی لوگوں کو بھی دیکھا۔ وہ لوگ جو ڈاکٹری کے معزز پیشے کو معزز نہیں سمجھتے، صرف پیشہ سمجھتے ہیں۔ وہ بھی جو ان چیزوں کے کاروبار میں ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے سامنے والے کے جذبات کی یا تو کوئی اہمیت نہیں ہوتی، یا ان کے پاس اپنی بات کو اچھے طریقے سے کرنے کا وقت یا صلاحیت یا دونوں نہیں ہوتے۔ اکثر ڈاکٹر ذرا سے مختلف بچوں کو مختلف کیٹیگریز میں رکھ کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ وہ بچے کی پرابلم یا بیماری کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرنے میں اپنا وقت ضائع کرنا نہیں چاہتے بلکہ مریض کو اپنے ذہن میں موجود مختلف ڈبوں میں سے ایک میں ڈال دیتے ہیں۔ ان کے پیسے کھرے ہو جاتے ہیں تو وہ آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی توجہ موجودہ کیس پر نہیں بلکہ آنے والے کیس پر ہے۔ ایسے لوگ میرے نزدیک اپنے پیشے کے ساتھ انصاف نہیں کرتے۔ ڈاکٹروں کو فیس لینے سے کسی نے نہیں روکا لیکن فیس کو زندگی کا مقصد بنا لینا ایک تکلیف دہ امر ہے۔ اور رہی بات صحت سے متعلق دوسرے کاروبار، تو وہ بہرحال کاروبار ہی ہیں۔ آلہ سماعت بیچنے والے کراچی کے ایک بڑے ادارے کے مالک صاحب نے مجھے کہا کہ حضرت آپ جلد سے جلد آلہ سماعت لگوا لیں ورنہ آج تو آپ کی بیٹی بہری ہے کل کو خدانخواستہ گونگی نہ ہو جائے۔ ا س جملے کی کاٹ کا اندازہ بھلا اس شخص کو کیسے ہوا ہوگا؟ گھر آ کر بھی بہت دیر اس جملے کی گونج میرے دل و دماغ میں رہی۔ ابھی بھی میں یہی سوچتا ہوں کہ کوئی شخص اس قدر آسانی سے اتنا سفاک جملہ کیسے بول سکتا ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ صحت اس ملک میں آسانی سے حاصل نہیں ہوتی، کیونکہ ایسے لوگوں سے یہ شعبہ اٹا پڑا ہے۔ پھر بھی کچھ لوگ ہیں جو اس شعبے کی عزت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ جیسے ہمارے دونوں محسن ڈاکٹرز یا میرے کزن ڈاکٹر شیخ جنہوں نے جویریہ کے آخری ایام میں ہماری ہر ممکن مدد اور رہنمائی کی ۔
جویریہ کی زندگی کے آخری کچھ مہینوں میں مجھے رہ رہ کر اس کی حفاظت کا خیال آتا تھا۔ لگتا تھا کوئی اس کو مجھ سے چھین لے گا۔ ہر سگنل پر، ہر پارک میں جہاں ہم جاتے تھے، وہاں میں بالکل مزہ نہیں کرسکتا تھا۔ ایک عجیب سی کیفیت تھی جسے میں اپنی اہلیہ تک سے بیان نہیں کر سکتا تھا۔ جانے کیوں مجھے لگتا تھا کہ یہ اب زیادہ عرصے نہیں رہے گی۔ میری اہلیہ اس بات پر پریشان ہوتی تھی کہ اس کی شادی کیسے ہوگی اور مجھے ایک لمحہ کے لیے بھی اس کی فکر نہیں ہوتی تھی۔ مجھے فکر تھی تو یہ کہ یہ بڑی ہوجائے۔ بظاہر یہ ایک نہ سمجھ میں آنے والی بات تھی کہ ایک ایسی بچی جو اتنے مشکل دور کو نسبتا ً با آسانی گذار آئی ہو اس کو آگے ایسا کیا خطرہ ہو سکتا ہے … لیکن ایک چیز مجھے کھٹک رہی تھی۔ کچھ عرصے سے اس کی طبیعت اچانک بہت بگڑجاتی۔ گلا بالکل بند ہو جاتا اور اگر فوراً اسٹیرائیڈ کا انجیکشن یا گولی نہ ملتی تو حالت بہت نازک ہو جاتی۔ بس یہی وہ بات تھی جو مجھے بے چین کئے رکھتی تھی۔ میں جویریہ کی پیدائش کے دن سے اس کی وفات کے دن تک اپنی بیوی کی ہر کال ایسے اٹھا تا تھا کہ اس کے ساتھ یا اللہ خیر کی دعا ہوتی تھی۔
اس اتوار کو میں دفتر میں تھا۔ اور میرے موبائل پر جویریہ کے ماموں کا فون آرہا تھا۔ میں نے سوچا نماز پڑھ کر کال کر لوں گا ، اس لیے کال نہیں اٹھائی ۔ لیکن جب دوبارہ کال آئی تو میں نے کال اٹھائی ۔ دوسری طرف سے ایک کہرام پڑا تھا اور اس میں اس کے ماموں کی چیختی ہوئی گھبرائی ہوئی آواز کہ “فراز بھائی جلدی آئیں جویریہ کی طبیعت بہت خراب ہے”۔ میں فی الفور اپنی گاڑی کی جانب دوڑا ۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی میں مجھ پر سکون کی ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ مجھے یقین ہو گیا کہ کچھ ہونے والا ہے۔ میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ” اے اللہ یہ آپ ہی کی امانت ہے، آپ ہی اس کا خیال کریں ، میں تو کچھ بھی نہیں کر سکتا”۔ ایسی گفتگو میں پہلے کئی بار کر چکا تھا … لیکن مجھے کبھی بھی ایسی خاموشی محسوس نہیں ہوتی تھی ، جیسی اس دن ہوئی۔
موبائل پر مستقل رابطہ میں رہتے ہوئے پتہ چلا کہ جویریہ کو وہ لوگ پہلے ایک ہسپتال لے گئے لیکن ان کے پاس نہ قابل ڈاکٹر تھے نہ آلات۔ تو پھر وہ دوسرے ہسپتال لے کر پہنچے اور وہاں میں پہنچا۔ اس وقت تک وہ بے ہوش ہو چکی تھی۔ پتہ نہیں اس کو میرے چیخنے کی آوازیں آئی ہونگی کہ نہیں۔ بہرحال اس ہسپتال سے بھی یہی جواب ملا کہ اس کو کسی ‘بڑے’ ہسپتال لے کر جائیں۔ وہاں سے ایمبولینس میں اپنی بیٹی کو ڈال کر میں اور اس کی نانی شہر کے دوسرے کونے پہنچے تو ڈاکٹروں نے کچھ ہی کوشش کے بعد یہ کہہ دیا کہ اب کچھ ہو نہیں سکتا۔ اس سارے وقت میں میں اپنے آپ کو کس طرح سنبھالے ہوئے تھا ، میں نہیں جانتا۔ بالآخر ڈاکٹروں نے ‘انا للہ و انا الیہ راجعون’ کہہ کر میری بیٹی کی رخصتی کا اعلان کر دیا۔
رات چونکہ کافی ہوگئی تھی ، اس لیے ہم نے اس کی تدفین دوسرے دن کرنے کا ارادہ کیا۔ رات کو سونا اگرچہ ایک مصیبت تھا لیکن ضروری بھی تھا۔ صبح جب ہم اٹھے تو میں اور میری بیوی دونوں نے ایک دوسرے سے یہ کہا کہ یوں لگ رہا ہے کہ جیسے کوئی پراجیکٹ ختم ہو گیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی بہت بڑی ذمہ داری تھی جس سے ہم لوگ عہدہ برآ ہو گئے ہیں۔ جب اس کو تدفین کے لیے لے جا رہے تھے اور میں نے اس کی پیشانی پر بوسہ لیا تو لگا کہ اس کا سرد وجود گویا وقت میں قید ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کی تدفین کے وقت بھی میں کافی مطمئن تھا۔ کیوں ؟ کیسے ؟ یہ میں نہیں جانتا ۔ اور جب میں دعا کروا رہا تھا تو میری آنکھوں کے سامنے وہ سارے بچے گھوم رہے تھے جن کو امریکی و اسرائیلی درندوں کی گولیاں اور میزائل روزانہ موت کے گھاٹ اتار رہے تھے۔
یہ محض میرے رب کا کرم ہے کہ میں اور میری بیوی دونوں اپنے حواسوں میں ہیں۔ اولاد کی موت پر میں نے لوگوں کو نیم پاگل بلکہ مکمل پاگل ہوتے دیکھا ہے۔ الحمد للہ ! اللہ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں ایمان کی دولت عطا فرمائی ۔ سو ہم جانتے ہیں کہ تقدیر لکھ دی گئی ہے، اس سے ہٹ کرایک پتہ بھی نہیں گرے گا۔ اب اس بات کا رونا کیسا کہ یہ کس کی غلطی تھی، کیا میری اہلیہ کی جس نے اپنی پوری زندگی اپنی بیٹی کے لیے وقف کردی اور جو اس وقت وہاں موجود تھی۔ کیا اس کے ماموں کی جس بیچارے کے سامنے شاید یہ پہلا ایسا کیس ہوا تھا۔ یا اس نظام کی جس میں شہر میں ہسپتال تو کئی ہیں لیکن قابل عملہ اور آلات ناپید۔
ہمیں سمجھ آیا کہ اولاد ہونا بذات خود کوئی فخر کی بات نہیں بلکہ یہ تو ایک مسلسل ذمہ داری ہے۔ اگر اولاد کی تربیت صحیح نہ کی اور وہ اولاد خدانخواستہ نافرمانی کے راستے پر چل پڑی تو وہ الٹا وبال بن جائے گی۔ تو اس حساب سے دیکھا جائے تو ہم کافی خوش نصیب رہے۔ ان مع العسر یسراً بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ دیکھیں ناں کتنی آسانی ہو گئی ، کہ اب نہ رشتہ تلاش کرناپڑے گا ، نہ پڑھانے کی فکر، نہ کھلانے پلانے کی فکر، نہ ڈاکٹروں کے چکر ، نہ لوگوں کو جواب دینے کی فکر کہ اس کو ہوا کیا ہے، نہ کسی کو یہ باور کروانے کی مشق کہ یہ سب سنتی ہے بس بولتی نہیں۔ بس یوں سمجھ لیں کہ ہم نے اپنے بیٹی کو اچھی طرح پڑھایا لکھایا، بہت اچھا سا لڑکا اس کے لیے دیکھا اور اس کو رخصت کر دیا، شادی کے بعد وہ ایسی جگہ چلی گئی جہاں نہ فون ہے نہ انٹرنیٹ، اور اس کو واپس آنے میں کافی وقت لگے گا۔ اس با ت کا یقین ہے کہ اب وہ اس ہستی کے پاس ہے جو مجھ سے اور اس کی ماں سے اسے کہیں زیادہ پیار کرتا ہے، بلکہ پیار تو کرتا ہی ہمارا رب ہے، ماں باپ تو محض ایک ذریعہ ہوتے ہیں۔ اللہ نے اپنے نبی ؐ کی زبان مبارک سے جو ہمیں بشارتیں دی ہیں وہ سنتے ہیں اور دل کو بہلاتے ہیں کہ بس چند دن اور۔
بے شک ان مع العسر یسراً کہ ، محض تین ہفتے بعد ہی، اللہ نے ہمیں ایک اور اولاد دے دی۔ ایک اور بیٹا دیا۔ یہ بھی اس کا کرم ہے۔ ہم شاید جویریہ کی یاد کو بھلا جاتے اگر بیٹی ہی مل جاتی۔ یہ سب اس کا فضل، اس کا کرم، اس کی رحمت، اس کی مرضی، اس کی مقرر کردہ تقدیر ہے۔ ہمارے پاس اگر کوئی اختیار ہے تو محض یہ کہ ان گزرتے ہوئے حالات میں ہمارا ردعمل اور نیت کیا ہوتے ہیں۔ ہونا وہی ہے جو لکھا ہوا ہے، لیکن کیا ہم اس پر راضی بھی ہیں؟ مجھے نہیں پتہ کہ اس میں اللہ کی کیا مصلحت تھی کہ اولاد کو اگر واپس ہی لینا تھا تو عطا کیوں کی تھی یا اتنا بڑا کیوں کیا، بس یہ وہ مقام ہے جہاں تسلیم و رضا ایک نتیجہ پیدا کرتی ہے اور ماتم اور نا شکری کے کلمات ایک دوسرا نتیجہ۔ایسا نہیں کہ ہم دونوں آنسو نہیں بہاتے۔ آنسو تو نبی اکرم ؐ نے بھی اپنے صاحبزادے کی وفات پر بہائے تھے، حضرت یعقوب ؑ کی آنکھیں حضرت یوسف ؑ کے غم میں سفید ہو گئی تھیں۔ اس کو بھول جانا ہمارے بس میں نہیں کہ یہی لگتا ہے کہ یہ سب ایک خواب ہے۔ ایسا ہم نہیں کرسکتے کہ یہ یکسر بھول جائیں کہ ہماری کبھی کوئی بیٹی تھی حالانکہ شاید اس سے ہمارا غم بہت حد تک کم ہو جائے۔ لیکن یہاں معاملہ یہ ہے کہ غم کو بھلانا مقصود نہیں ہے بلکہ اس غم کے ذریعے اپنے رب تک پہنچنے کا راستہ آسان بنانا ہے۔ یہی ہے مومن کی زندگی کا حال۔ مصیبت پر صبر اور آسانی پر شکر۔ ہر دو صورتوں میں مقصد اور مقصود صرف ایک، اور وہ یہ کہ ہمارا رب ہم سے خوش ہو جائے۔ لہٰذا حضرت یعقوب ؑ کے الفاظ میں ہی انما اشکوا بثی و حزنی الی اللہ کہتے ہیں اور اللہ سے یہی دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم کو اپنے فرمانبردار بندوں میں شامل کرلے اور انہی میں ہمیں رکھے۔ آمین۔
میں ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرپایا ہوں کہ میں نے یہ مضمون لکھا کیوں ہے۔ بس مجھے بہت سوچنے کے بعد یہی سمجھ آیا کہ مجھے اپنے احساسات کو کاغذ پر منتقل کر لینا چاہیے۔ اگر آپ یہاں تک پڑھ رہے ہیں تو بس ایک چھوٹی سی بات چلتے چلتے اور عرض کر دوں کہ اپنی اولاد پر پیسہ خرچ کرنے سے زیادہ کوشش اس بات کی کریں کہ اس کو بھرپور وقت اور توجہ دیں ۔ اپنی اولاد کو اپنے لیے صدقہ جاریہ بنانے کی کوشش کریں اور اپنے والدین کے لیے خود صدقہ جاریہ بننے کی۔ اپنے پیاروں کے ساتھ وقت گذارنے میں خوشی محسوس کریں۔ میں نے جویریہ کو آخری دفعہ اس کی نانی کے گھر چھوڑا تھا اور وہ کمپیوٹر پر بیٹھی تھی، میں چپکے سے نکل گیا کہ اگر اس نے نکلتے ہوئے دیکھ لیا تو قیامت ڈھا دے گی۔ آپ ہی بتائیے کہ اگر مجھے پتہ ہوتا کہ یہ میری اس سے آخری ملاقات ہے تو میں کبھی ایسے جاتا؟ وہ پورا دن اس کے ساتھ نہ گذار دیتا؟ اللہ نے ہم سے ہماری تقدیریں اوجھل رکھی ہیں ، ہم نہیں جانتے آگے کیا ہونے والا ہے، لیکن یہ تو کوشش کرسکتے ہیں نا کہ اپنے ہر الوداع کو خوشگوار بنا لیں، کیا پتہ پھر کتنے ہزار سال بعد کس جگہ کیسے ملاقات ہو؟
وقت بیعت کب ہوگا؟
کسی بھی قوم یا ملک کے لئے دو میں سے کوئی ایک ہی صورت ہوتی ہے . یا تو وہ حالت امن کی ہوتی ہے یا جنگ کی . اسی طرح ملکوں کی جو قسمیں معروف ہیں وہ دار الاسلام اور دار الکفر، اور دار الحرب اور دار الامن ہیں. ان سب حالتوں اور قسموں کے لئے احکام اور فرائض اور واجبات کی تفصیلات میں فرق ہے اور کسی بھی مسلمان کے لئے یہ جاننا انتہائی ضروری ہے کہ وہ ان میں سے کس قسم کے احکامات کے ذیل میں آتا ہے اور اسی حساب سے اس کو اپنے اعمال کو ترتیب دینا چاہیے. یہ اتنا اہم سوال ہے جس کا جواب حاصل کرنا میرے نزدیک ہرشخص کے لئے ضروری ہے. اسی لئے اس کے صحیح جواب کے حصول کے لئے میں اس خط کے ذریعے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے علمائےکرام کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہتا ہوں، بلا تخصیص فقہ و مسلک.
جناب والا، جو حالات اس وقت اس سرزمین پر واقع ہورہے ہیں وہ کچھ سمجھ سے بالا تر ہیں. ایک طرف تو بازار اور ریستوراں بھرے رہتے ہیں اور دوسری طرف انہی گلیوں میں موت کا رقص ہو رہا ہے.یہ بہت پرانی بات نہیں ہے جب لوگ اکیلے نہیں غول کے غول اغواء ہورہے تھے. کراچی کی حالت مرغیوں کے اس ڈربے کی طرح ہو گئی ہے جس میں جب قصاب ہاتھ ڈالتا ہے تو ایک کھلبلی مچ جاتی ہے. اور جب قصاب اس میں سے اپنے مطلب کی مرغی نکال لیتا ہے تو وہ مرغی تو چیخ چیخ کر فریاد کرتی رہتی ہے لیکن دوسری مرغیاں اپنے دانے پانی میں مصروف ہو جاتی ہیں. کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس مرغی کی باقیات دوسری مرغیوں کو کھانے کو دے دی جاتی ہیں!
ہمارے ملک میں تقریباً روز ایک بیرونی حملہ ہوتا ہے لیکن حکومت ایک مریل سے احتجاجی بیان کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرتی. یہ حالت امن کی ہےیا جنگ کی؟ یہ دار الامن ہے یا دار الحرب؟ کیا ہم پر کسی دشمن ملک نے حملہ کیا ہے؟ اگر ہاں تو ہم اس کے لئے کیا کرسکتے ہیں؟ اور اگر نہیں تو کیا امریکا ہمارا دوست ہے؟ اور کیا اسلام میں یہ بات پسندیدہ ہے کہ کوئی بھی کافر فوج مسلمانوں کے علاقے میں آ کر مسلمانوں کو مار دے وہ بھی بغیر کسی ثبوت کے؟ اس بات میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں کہ ڈرون حملوں کو حکومتی حمایت ہی نہیں سرپرستی بھی حاصل ہے.موجودہ حکمران طبقہ باوجود اس کے کہ ہماری تاریخ کے بعض بد ترین لوگوں پر مشتمل ہے ، اس کو نہ عدلیہ کی طرف سے کوئی خطرہ ہے نہ فوج اور نہ ہی اپوزیشن یا حلیف جماعتوں سے. ان سب کو دارالحکومت میں موجود شاطر دماغ شخص نے اپنی چالوں میں ایسا پھنسایا ہے کہ اب اس حکومت کے خلاف کیا گیا کوئی بھی اقدام صرف اس حکومت کو ہی فائدہ پہنچائے گا اور کسی کو نہیں. اور سچ تو یہ ہے کہ اس نظام میں جو بھی آیا پچھلے والے سے بد تر آیا، تو یہ سوچتے ہوئے بھی ابکائی سی آتی ہے کہ اگر یہ گئے تو ان سے بد تر کیا ہو گا؟
محترمی ، یہ بات تقریبا تمام فقہا کے نزدیک مسلم ہے کہ مسلمان حکمران کے خلاف خروج جائز نہیں جب تک وہ فرائض اور واجبات کی ادائیگی سے نہیں روک رہا.بلکہ بغاوت کرنے کا ارادہ بھی رکھنے والے کو قتل کیا جا سکتا ہے.شاید اسی لئے پوری مسلم امہ میں جو کٹھ پتلی حکمران ہیں انہوں نے نہ صرف یہ کہ عوام کو کبھی فرائض کی ادائیگی سے نہیں روکا بلکہ ان میں مزید بدعات اور رسومات کی بھی ترویج کی تاکہ لوگوں کو لگے کہ وہ عبادت میں آزاد ہیں. ہمارے ملک میں بھی چاہے جمعہ یا عیدین کے اجتماعات ہوں یا محرّم و میلاد کے، حکومت ہر ممکن کوشش کرتی ہے کہ ان میں کوئی رکاوٹ نہ ہو.
لیکن کیا فرائض کی ادائیگی کا مطلب یہ ہے کہ صرف نماز ، روزے، حج اور زکوۃ ٰ کی آزادی ہو؟ اسلام کےا ہم ترین فرائض میں سے ایک جہاد فی سبیل اللہ بھی ہے جس کے فرض ہو جانے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کوئی کافر ملک کسی اسلامی ملک پر حملہ آور ہو جائے. کیا یہ ڈرون حملے (جو آئے دن ہوتے رہتے ہیں ، نیز سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ والے واقعے کو بھی ابھی زیادہ دن نہیں گزرے) ایک کافر ملک کا ایک مسلمان ملک پر حملہ نہیں کہلاتے؟ خصوصا جب کہ مرنے والے ٩۰ فیصد لوگوں میں عورتیں، بوڑھے اور بچے شامل ہیں اور جو باقی دس فیصد مرتے ہیں ان کے خلاف بھی کوئی ثبوت دینے کی زحمت وہ کافر ملک نہیں کرتا. کیا ان ڈرون حملوں کا جنگ کے حکم میں آنے کے لئے ضروری ہے کہ یہ حملے کراچی یا لاہور میں ہوں؟ کیا وزیرستان، وانا اور ڈاما ڈولا میں رہنے والے مسلمان نہیں؟ کیا وہ پاکستان نہیں؟ اس بات سے قطع نظر کے یہ ڈرون ہمارے علاقوں سے اڑتے ہیں اور یہ کہ ان کو حکمران طبقے کی در پردہ پشت پناہی حاصل ہے، اس بات میں شمہ برابر بھی شک نہیں ہے کہ یہ ڈرون امریکی فوج کے ہیں جو اسرائیلی پالیسیوں اور دجالی ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں استعمال ہو رہے ہیں. کیا اب بھی جہاد فرض نہیں؟ کیا اب بھی حکومت فرائض ادا کرنے دے رہی ہے؟
جناب والا، یہ بات سچ ہے کہ ماضی میں کئی ایسے واقعات ہیں جن میں آپ کے ہی بزرگوں نے ایسے ایسےمضبوط موقف اپنائے ہیں کہ حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑا. قادیانی فتنہ اس کا بیّن ثبوت ہے. لیکن فی زمانہ علماء کے لئے یہ بہت مشکل ہو گیا ہے کہ وہ حق کے لیے آواز بھی اٹھاسکیں چہ جائیکہ اس کے لئے ہتھیار اٹھائیں. مولانا غازی عبد الرشید نے یہ کام کیا تھا لیکن ان کووہیں دبا دیا گیا. لال مسجد کا حشر کر کے جہاں طاغوت نے اس “فتنہ” کا قلع قمع کیا وہیں اس نے یہ بات بھی یقینی بنا لی کہ اب کوئی بھی سرفروش امر با لمعروف و نہی عن المنکر کی “خواہش” دل میں نہ پال سکے. دوران گزشتہ رمضان پریس کانفرنس اس بات کا ثبوت ہےکہ علماء جو پہلے ہی “گوشہ نشین” تھے ، اب کم گو بھی ہو گئے ہیں . ان کو احساس ہے کہ کوئی بھی مہم جوئی ان کو نہ صرف تنہا کر دے گی بلکہ ان کا علمی ورثہ بھی ختم ہو سکتا ہے. آپ کے سکوت میں یقینا کوئی مصلحت ہوگی لیکن کسی کا دنیاوی انجام ہرگز اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ کام کرنے کا نہیں. لال مسجد نے جو بھی کیا وہ مکمل طور پر صحیح نہ سہی، لیکن غلط بھی نہیں. ان کا لائحہ عمل قابل اختلاف ہے لیکن مقصدنہیں.
حضرت، گستاخی کی معافی چاہتا ہوں لیکن آپ حضرات کے صبر کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے اس ملک میں کیا کیا کھیل کھیل دئیے گئے۔ نصاب میں سے جہاد کی آیات نکال دی گئیں۔ ہمارے ملک سے پکڑ پکڑ کر لا تعداد لوگوں کو غیر مسلم قوتوں کے حوالے کیا گیا۔ داڑھی اور جبہ و دستار کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ مخنث کو ایک الگ جنس قرار دے دیا گیا ہے جس کی وجہ سے آج اس ملک میں مرد سے مرد کی شادی کا قانونی راستہ نہ صرف کھل گیا ہے بلکہ اس قبیح فعل کا ارتکاب ہو بھی چکا ہے جس کو میڈیا میں کھلم کھلا دکھایا جا رہا ہے۔ آزادی اظہار رائے اور روشن خیالی کے نام پر فحش کلامی ، فحاشی اور عریانی کا بازار گرم کر دیا گیا۔ شراب اور دیگر منشیات اس وقت تقریبا سر عام مل رہی ہیں۔ لوگوں سے بجلی، گیس اور دوسرے بلوں کی مد میں گزشتہ تاریخوں میں پیسے بڑھا کر اگلے مہینوں میں وصول کیے گئے جو کہ احقر کے علم کی حد تک نا جائز اور غیر شرعی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کو رہا کر دیا گیا جس کے لیے دیت کے قانون کا سہارا لیا گیا۔ ہمارے ملک کے حکمرانوں نے غیر مسلم حکمرانوں کو تعاون کے خطوط لکھے اور پھر بھی مسند اقتدار سے ہلنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ یقین کریں کہ عوام صرف اس لئے چپ بیٹھے ہیں کہ علماء چپ بیٹھے ہیں. علماء TV پر آ کر رمضان کے فیوض و برکات پر درس دے دیتے ہیں لیکن حکمرانوں کی منافقت پر جمعہ کے خطبوں میں بھی شاذ ہی بولا جاتا ہے. بلکہ قنوت نازلہ تک کی صدا کہیں سے نہیں آتی. محض قنوت نازلہ کی ملک گیر تحریک سے ہی کم از کم لوگوں میں بیداری کا جذبہ تو آئے گا. لوگ سوال کریں گے کہ یہ کیا ہے اور کیوں ہوتا ہے؟ کیا عجب لوگ اسی طرح اپنی حالت پر متوجہ ہو جائیں.
اس وقت ملک کے پانچوں وفاق المدارس میں لاکھوں طلباء پڑھ رہے ہیں. یہ طلباء جہادکے موضوعات بھی پڑھ رہے ہیں اور خاص قتال جیسے موضوعات بھی. جب وہ پڑھتے ہونگے کہ نبی اکرم ﷺ نے یہودیوں کے ایک قبیلے پر محض اس لئے چڑھائی کر دی تھی کہ اس نے ایک مسلمان کو قتل کیا تھا اور وہ مسلمان اس لئے قتل کیے گئے تھے کہ انہوں نے ایک مسلمان بہن کے سر سے دوپٹہ کھینچنے پر ایک یہودی کو قتل کر دیا تھا. وہ پڑھتے ہونگے کہ نبی رحمت ﷺ نے کئی کئی دن قنوت نازلہ پڑھ کر کافروں کے لئے بد دعائیں کیں. پھر یہ طلباء دیکھتے ہیں کہ گاؤں کے گاؤں اور بستیوں کی بستیاں ہیں کہ قتل کی جارہی ہیں لیکن نہ کہیں کوئی ذمہ دار شخص یہ کہتا ہے کہ یہ بند کرو اور نہ ہی کوئی بزرگ ہاتھ خاص اس دعا کے لئے اٹھتا نظر آتا ہے.سمجھ نہیں آتا کہ یہ مدارس اپنے ان بچوں کو کیونکر روک پاتے ہونگے جب ان بچوں کا خون کھولتا ہوگا. اس طاقت کو دجالی طاقتیں بخوبی سمجھتی ہیں اسی لئے مستقل یہ کوشش جاری ہے کہ مدارس کو حکومتی اثر میں لے آیا جائے. اور وہ وقت آج یا کل میں آنے ہی والا ہے. آپ اپنے مدارس کو بچانے کے لئے افغان کاز سے پیچھے ہٹے تھے، جنگ پاکستان میں آگئی . آپ نے شمالی علاقوں سے لا تعلقی کا اعلان کیا، جنگ اب آپ کے شہروں میں ہے. اور وہ دن دور نہیں جب آپ کو ایک ایک کر کے تنہا کیا جائے گا. پہلے ایک گرے گا پھر دوسرا پھر تیسرا. اور ہر دفعہ باقی سب کو یہ لگ رہا ہو گا کہ ان کے مدرسے کو کچھ نہیں کہا جائے گا کیونکہ وہ تو کچھ کر ہی نہیں رہے. اگر اس میں کوئی شک ہے تو ہمارے سامنے اندلس کی تاریخ بہت واضح نشانی ہے۔
یہ بات تو تسلیم شدہ ہے کہ جب جب اللہ اور رسول ﷺ کا نام لیا گیا ہے عوام اور خواص دونوں اپنے اپنے مسلکی اور فقہی اختلافات بھلا کر ان مقدس ناموں کی چھتری تلے جمع ہو گئے ہیں. علماء میں ایسے بزرگ آج بھی ہیں جن سے عوام اور خواص یکساں عقیدت رکھتے ہیں. ایسے بزرگ اگر آواز دیں گے تو لوگ لازما پلٹیں گے. اور کچھ نہیں تو یہ لاکھوں طلبا جو آپ کے مدارس میں پڑھ رہے ہیں وہ تو ان شاءاللہ آئیں گے ہی. ان کی رگوں میں دوڑتا اسلاف کا لہو کوئی ایسا بے وقعت بھی نہیں کہ جس میں غیرت ایمانی نہ ہو. اور عوام بھی اگر لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کے لئے سڑکوں پر آ سکتے ہیں تو ان میں سے کچھ تو اللہ رسول ﷺ کے نام پر آئیں گے.
اپنے پہلے سوال پر واپس آتا ہوں۔ صرف اتنا حکم فرما دیجیے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اس وقت دارالاسلام ہے یا دارالحرب۔ دونوں صورتوں میں خاص ہمارے ملک کے حساب سے احکامات مستنبط فرما دیں اور اس کو عام کرنے کی اجازت دے دیں تو ہم عوام کے لیے بہت سہولت ہو جائے گی۔ دوسری جانب اگر آپ سمجھتے ہیں کہ واقعی جہاد کی پکار لازم ہو چکی ہے تو آواز لگانا آپ پر فرض اور جہاد کے لئے بیعت لینا آپ کے لئے لازمی ہے. اور اگر یہ سمجھتے ہوئے بھی آواز نہیں اٹھاتے تو یقیناً بروز جزا اس مالک یوم الدین کو دینے کے لئے آپ کا جواب تیّار ہو گا ہی.
و ما علینا الا البلاغ
Blasphemy Law and The Dilemma of the Apologists!
A few years back there was a huge uproar in the Muslim communities around the world over the Danish cartoon controversy. Protests in some parts such as Pakistan turned violent and angry mobs damaged private property apart from burning effigies of the culprits. This scribe had written a piece- in fact a series of articles– back then urging people to just ignore these insults as, in my opinion back then, that’s the only suitable reply. Apart from that, the series also tried to prove from the Seerah of RasooluLLAH (s.a.w.) and Sahaba (r.a.) that they always dealt with blasphemous behavior in the same way.
Well, I have to confess, I was ignorant of our history and I was foolishly wrong!
I guess now that I’ve read and heard a bit of our history (still not all of it obviously), I can tell you that there’s overwhelming evidence that the only suitable punishment against blasphemy to RasooluLLAH (s.a.w.) and all the prophets of ALLAH (s.w.t.) is death, and a swift one at that! Not only there’re instances that Sahaba (r.a.) killed blasphemers but they did so with the approval, and in some cases orders, of RasooluLLAH (s.a.w.).
Ka’b ibn Ashraf, Abu Rafay, Ibn Khatal and his two slavegirls, a jewish woman in Medina and lots of others are such criminals that were slain by Sahaba (r.a.) and, as is reported in numerous Hadith, with orders or approvals of RasooluLLAH (s.a.w.). Some were set up, some ambushed, some immediately killed, some properly executed.
The fact that such an important part of Seerat un Nabi (s.a.w.) is one of the most obscure ones is a mind-boggling phenomenon. We’ve been taught in our schools and colleges and higher levels that Islam is a religion of tolerance, that RasooluLLAH (s.a.w.) always fought when war was thrust upon Muslims and that RasooluLLAH (s.a.w.) pardoned each and every one of his enemies – even the killers of Hadhrat Hamza (r.a.)- on the day of Fath Makka,.
It turns out that we’ve been told only partial truths!
The history that we have been studying in our course book has been contorted; the Truth has been misconstrued. The roots of the current science-centric education system that we are following in Pakistan, can be traced back to two major movements historically: a) Malthusianism[1] and b) the Ali Garh movement[2]. It was with the efforts of Sir Syed Ahmed Khan that Muslims started studying the sciences and English language and his services can’t be denied. Yet, it was also largely due to his influence that Muslims, early after, adopted the already corrupt and infected education system set by British East India Company.
The advent of this modern education in Muslims became the main cause of promotion of a more docile version of Islam. A docile, rather toothless, version of Islam that practices non-violence to the core and goes to war only when war is thrust upon it. While that’s not entirely untrue, it’s not the whole truth either. There are countless examples when the offensive was taken by Muslims and took the Kuffar by surprise. Ghazwa Badr was well and truly the first proper battle between Muslims and Kuffar but what’s not told to us is that there were as many as eight military expeditions sent or led by RasooluLLAH (s.a.w.) before the battle of Badr. Each of those expeditions paid dividends and a large area in Hijaz which was earlier under allegiance with Quraish either became a Muslim ally or became neutral. Also, there’re a lot of examples of preemptive strikes out of which the famous battle of Khyber and the battle of Bani Al-Mustaliq are famous. Reading our history in this way casts a totally different light altogether to how we should go about our religious duties. But by and large, these incidents have been obscured by our education system and either inadvertently or intentionally created breeds after breeds of apologists whose life’s work is to deny such important elements of our history.
Some glaring examples can be found in response to the recent case of Aasia Maseeh, the woman convicted of blasphemy against RasooluLLAH (s.a.w.). While there are liberal fascist making raucous noises to repeal the blasphemy law altogether, there are also some apologists, senior opinion-makers in the print and electronic media, who are trying to remind us of the tolerance in our religion, that a mother of 5 children – one of which is disabled- should be pardoned, especially after she says she’s sorry. There are also such daft columnists who see Salman Taseer’s hasty visit with his family to the convicted woman in prison and conducting a press conference there as an act out of empathy. It’s beyond words how disgusted the people of Pakistan are with the efforts of the ruling class to have a convict of blasphemy pardoned, that too on the orders of Pope Benedict, while the same ruling elite is tightlipped over the abduction and illegitimate trial of Dr Aafia Siddiqui.
But even if we assume that the government will go the whole nine yards to get Aasia removed to some western country, it seems appropriate at this point to see if pardoning Aasia Maseeh is within the power of the government or not.
Apologists claim that RasooluLLAH (s.a.w.) pardoned everyone who ever said anything foul to him. They give the examples of the women who threw garbage on RasooluLLAH (s.a.w.) daily, whom he (s.a.w.) had visited when she’d fallen ill. They also give the examples of conquest of Makka (Fath Makka) when he (s.a.w.) pardoned everyone in Makka. They also claim Aasia Maseeh said she’s sorry and has hence repented. They also say that Aasia is a non Muslim and Muslim capital punishment is not applicable to her. They say she’s a women and she’s poor so she should be pardoned. That we should pardon her to show goodwill towards west and thus pave the way to Islam’s preaching.
First of all, the amnesty on the day of the Fath Makka was for everyone, except there was a black list. A list of those who were to be slain even if they were found hanging with the curtains of Kabba, the most sacred of sacred places on earth. Ibn Khatal, as it goes, was found exactly in this situation and still was executed. There were two slavegirls of Ibn Khatal who used to sing absurdities against RasooluLLAH (s.a.w.) and they were also in that list. It’s important to note that they were also women like Aasia, they were also non-muslims like her, they probably were also poor, in fact they were slaves and hence had no free will, still they were executed. Ibn Taimiyah says that it shows that blasphemy against RasooluLLAH (s.a.w.) is an even greater crime than murder.
Secondly, even if we agree that RasooluLLAH (s.a.w.) pardoned some when he found it appropriate, it should stand as his prerogative and that’s it. Now we can’t pardon anyone on his behalf. Neither the government, nor the complainant.
Thirdly, even if she’s sorry for what she did doesn’t make her crime any milder. It’s similar if a murderer on the death row says he’s sorry, doesn’t absolve him of his crime. After all we’ve just seen that the crime that was perpetrated here was bigger than murder. It’s the verdict of scholars new and old, that the perpetrator of blasphemy should be killed immediately and not to be given a chance.
Lastly, we shouldn’t pardon her to just show our goodwill towards the west. Just to show how tolerant we are. That’s the most absurd excuse to do something equally absurd. If we had dealt with blasphemers in the way of Sahaba (r.a.) lately, our outlook would be a lot more different from it is today. It’s because of this tolerant behavior that any tom, harry or dick could say or write what he likes about our sacred personalities. If Salman Rushdi had been slain back then in the eighties, or Tasleema Nasreen back in the nineties, or the perpetrators of the European newspapers controversy had been killed back then, we would be a lot better off than we are today. Every time something like this happens, our response has grown weaker. And now it has come down to the point where our government is trying to dodge its public to provide safe passage to a convict of blasphemy. I seek refuge with ALLAH (s.w.t.) from the day when our public would be trying to save such a criminal from punishment.
As an afterthought, we probably should agree with the liberal fascists on one thing. That the blasphemy law should be repealed altogether. As it happens, having a law for a crime makes the punishment predictable. And when something is predictable it’s all the more defendable. If there’s no blasphemy law, then public would do justice on its own. The anticipation of punishment would be all the more painful for the perpetrators as the punishment itself.
There would be a Ghazi Ilm Deen Shaheed on every street, every city!
[1] Malthusianism refers to the political/economic thought of Reverend and indirect employee of British East India Company Thomas Robert Malthus, whose ideas were first developed during the industrial revolution. It follows his 1798 writings, An Essay on the Principle of Population, which had a great impact on the way British East India Company managed India; it had a great impact on economic\political\education policies of Great Britain.
[2] Aligarh Movement was the movement led by Sir Syed Ahmed Khan, to educate the Muslims of the Indian subcontinent after the defeat of the rebels in the Indian rebellion of 1857.
leave a comment