Baigsaab's Blog

آپ کا فرض!-

Posted in Islam, Personal, Social revolution by baigsaab on June 19, 2015

بھوک انسان سے کیا کیا کرواتی ہے۔ بھوکا آدمی چوری بھی کر سکتا ہے اگر اس کو کھانے کو کچھ نہ ملے۔ لوگ اپنے بچوں کی بھوک سے پریشان ہو کر خودکشی کر لیتے ہیں کہ موت اس تکلیف سے آسان لگ رہی ہوتی ہے۔

مگر بھوک کو انسان اختیار بھی کر لیتا ہے۔ کبھی کوئی اپنا مر جائے تو کھانے کی طرف دیکھنے کا بھی دل نہیں چاہتا۔ کبھی بہت غصہ آئے تو انسان کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے۔

انسان اپنے کسی بڑے مقصد کے حصول کے لیے بھی بھوکا رہ لیتا ہے۔ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو نہ آخرت کو مانتے ہیں نہ خدا کو مگر اپنے کاموں کے لیئے کئی کئی وقت کی بھوک پیاس برداشت کر لیتے ہیں۔

تو کیا ہم مسلمان ان ملحدوں سے گئے گزرے ہو گئے ہیں؟ ذرا افطار کے وقت ٹریفک کا حال دیکھیں۔ لگتا ہے مسلمانوں نے روزہ رکھ کر احسان کر دیا ہے کسی پر۔ ہر کوئی بے صبری کے بام عروج پر ہے۔ ہر کوئی اس فکر میں ہے کہ روزہ گھر والوں کے ساتھ کھول لے۔ اس جلدی میں کبھی کسی کی گاڑی کسی کو لگ جائے تو برملا گالیاں تک دینے سے دریغ نہیں کرتے۔ شکر ہے کافی عرصے سے ہاتھا پائی دیکھنے میں نہیں آرہی۔

یہ سب کچھ یہ جانتے ہوئے ہے کہ اللہ کو ہماری بھوک اور پیاس کی کوئی ضرورت نہیں۔ کسی کے پیاسے رہ لینے سے اس بے نیاز ہستی کو کیا فائدہ یا کیا نقصان؟ پھر بھی اس نے اس عبادت کا ثواب خاص اپنے لیے مخصوص کر لیا ہے کہ وہ ہی اس کا بدلہ دے گا۔ روزے کا فائدہ صرف اور صرف انسان کے اپنے لیئے ہے۔ اور وہ یہ کہ وہ انسان جس میں اللہ نے اپنی طرف سے ایک انتہائی اعلیٰ شے یعنی ‘روح’ پھونک دی ہے وہ انسان اپنی چھوٹی چھوٹی نفسانی خواہشات کو قربان کر کے اس اعلیٰ حیثیت کو حاصل کر لے اور اس ‘احسنِ تقویم’ تک پہنچ جائے جس پر اس کو پیدا کیا گیا تھا۔

روزہ رکھیں ضرور، کیونکہ وہ فرض ہے۔ مگر یہ یاد رکھ لیں کہ آپ کا روزہ آپ پر ہی فرض ہے، دوسروں پر نہیں۔

Tagged with: , , ,

پھل

Posted in Islam, Personal by baigsaab on June 19, 2015

درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ بیر کے درخت سے فالسے نکل آئیں، یا آم کے درخت میں سیب آجائیں۔
تو ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے دن اور رات ایک ہو جائیں؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ہمارے اندر تو آخرت کا یقین ہو اور ان کے اندر نہ ہو اور پھر بھی انتظار دونوں کو نئی فلم کا ہو، آخرت کا نہ ہو! ہم کہاں ایسی زندگی گزارنے لگے کہ ہفتے کے پانچ دن حلال جانوروں کی طرح کام کیا اور باقی دو دن حرام جانوروں کی طرح تفریح۔ یعنی انسان بننا ممکن ہی نہیں؟ اگر ان کی زندگی کا محور تفریح ہے تو ان کے پاس یہ ‘یقین’ ہے کہ اس عالم کے بعد کچھ نہیں۔ ہمارے پاس کیا یقین ہے؟ نئی سے نئی فلم دیکھنے کی دوڑ میں ہم کہاں شامل ہو سکتے ہیں؟ ایک میچ سے دوسرا میچ، ایک سیریز سے دوسری سیریز؟
ہمارے پاس بزعم خود وہ ‘کتاب زندہ’ ہے جو اس دنیا کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ تو ہماری اپنی کایا کیوں نہیں پلٹ رہی؟
جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے تو ہم سب کے سب ایک ہڑبونگ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تو تو میں میں کا ایک لا متناہی سلسلہ ہوتا ہے جو مصیبت سے بڑھ کر مصیبت ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم وہ لوگ جن کو ان کے ماں باپ یا بہن بھائیوں نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے پڑھا لکھا کر اس قابل بنایا کہ وہ اس دنیا کو اس سے بہتر جگہ بنائیں، ہم نے بھی اپنی زندگی کو ویک ڈے اور ویک اینڈ میں بانٹ لیا ہے۔ کوئی ایک مفید بات، کوئی تعمیری کام، کوئی مثبت سوچ ہمارے پاس کیوں اپنا گھر نہیں بناتی؟ خدارا میں تفریح کے خلاف نہیں،میں خود تفریح کرتا ہوں تو اس کی مخالفت کیسے کروں؟ مجھے بس کوفت اس بات سے ہوتی ہے کہ جب اٹھارہ بیس سال تعلیم پائے لوگوں کے سامنے بھی زندگی محض ایک ویک اینڈ سے دوسرے کا سفر رہ جاتی ہے تو اس معاشرے میں واقعی سدھار بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
امید کی بات مگر یہ ہے کہ دل کی زمین میں بیج کسی بھی وقت بویا جا سکتا ہے۔ ہر دل میں اپنا ہی ایک موسم ہوتا ہے۔ اور ہر دل اپنے خاص طریقے سے ہی بیجوں کی افزائش کرتا ہے۔ دلوں میں قرآن کا ہل چلائیں، دعاؤں کی بارش کریں، ایمان کا بیج ان شاء اللہ ضرور اگتا ہے۔ اور اس کا پھل ایسے دن رات نہیں ہوتے جیسے آج کل ہمارے ہیں۔

Tagged with: , , ,

قبولیت!-

Posted in Islam, Personal by baigsaab on June 19, 2015

زمانہ جاہلیت میں بھی عرب میں کچھ چیزوں کی حرمت مسلّم تھی جیسے حرمت والے مہینے، مہمان اور وعدہ و عہد ۔ بیت اللہ ان حرمت والی چیزوں میں سے غالباً واحد عمارت تھی۔ الرحیق المختوم کے مطابق رسول اللہؐ کی عمر مبارک کا پینتیسواں (35) سال تھا کہ قریش نے بیت اللہ کی تعمیر نو کا ارادہ کیا۔ اس ارادے کے پیچھے جو بھی مقاصد ان کے ہوں اس کے لیئے جو فیصلہ انہوں نے کیا وہ یہ تھا کہ اللہ کے اس گھر کی تعمیر میں اپنی حرام کمائیوں میں سے ایک پیسہ بھی شامل نہیں کریں گے۔ چنانچہ طوائفوں کا مال، سود اور کسی سے ناحق چھینا ہوا مال اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ بالآخر خانہ کعبہ کی تعمیر جب شروع ہوئی تو پتہ چلا کہ مال کم پڑ گیا ہے اورچوتھی طرف کی دیوار بن نہیں سکے گی تو ان ‘مشرکوں’ نے اس چوتھی جگہ کی لمبائی کم کر کے آخر میں ایک چھوٹی دیوار اٹھا دی۔ اس دیوار کو ہم حطیم کے نام سے جانتے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ جاہل عرب بدو جن کے سامنے زندگی کا کوئی اعلیٰ مقصد، کوئی منزل، کوئی آخرت کا شوق کچھ بھی نہیں تھا، وہ تو اللہ کے لیئے کیئے گئے کام میں حرام کی آمیزش نہ کریں چاہے بقیہ عرب میں ہنسی اڑ جائے کہ ان سے کعبہ کی تعمیر بھی نہ ہو سکی۔ اور ہم جن کے لیئے ‘تھیوری’ میں اصل زندگی آخرت کی ہے، وہ نمازیں بھی پڑھیں مگر ساتھ ہی سود بھی کھائیں کھلائیں، اسی مال سے زکوٰۃ بھی دیں اور صدقات بھی۔ قرآن کھول کر نہ دیکھیں اور حدیث کو نہ سنیں کہ دیکھ یا سن لیا تو عمل واجب ہو جائے گا۔
ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی بری عادت میں ملوث ہے۔ کسی کو جھوٹ بولنے کی عادت ہے، کسی کو وعدہ خلافی کی، کسی کو امانت کے مطلب ہی نہیں پتہ تو کوئی سود خوری میں ملوث ہے، کوئی بے پردگی کو اپنا تکیہ بنائے بیٹھا ہے تو کوئی غیبت اور چغلیاں ہی کرتا بیٹھا رہتا ہے۔
خوشخبری یہ ہے کہ ہماری مدد کے لیے اللہ نے رمضان کو ایک دفعہ پھر بھیج دیا ہے۔  شیاطین جن قید کر دئیے جائیں گے۔ ہر طرف قرآن اور حدیث کی آوازیں آرہی ہونگی۔ دیکھا جائے تو یہ مقابلہ برابر کا نہیں ہے۔ اللہ نے ہمارے نفس کو تنہا کردیا ہے کہ اس کی مدد کے لیئے اب کوئی نہیں آئے گا۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس دفعہ بھی اپنے نفس کے لیئے عذر تلاش کرتے ہیں یا اس دفعہ ہم اپنے آپ کو اس غلاظت سے نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس کا نام گناہ کبیرہ ہے۔
اللہ کو نہ ہمارا بھوکا رہنا کوئی فائدہ دے سکتا ہے۔ نہ مال خرچ کرنا اس کی سلطنت میں کوئی اضافہ کر سکتا ہے جو بھی نیکی کرے گا اپنے بھلے کے لیئے کرے گا، جو بھی برائی کرے گا اپنا نقصان کرے گا۔
اور قریش کے اس عمل سے ایک چیز جو مجھے دیکھنے کو ملی وہ یہ کہ جب حجر اسود کو نصب کرنے کا وقت آیا تو اللہ نے اپنے نبیؐ کے ہی دست مبارک سے اس کام کو انجام دلوایا۔ کیا پتہ ہمیں بھی اپنے اعمال کی ایسی ہی قبولیت نصیب ہو جائے !!! آمین!

Tagged with: , , , ,

یہ کیسی عید ہے؟

Posted in Social revolution by baigsaab on August 1, 2014

یہ عید کا دن تھا، اور عید کے دن عصر سے پہلے کا وقت کافی خاموشی کا ہوتا ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں بازاروں میں جو رش ہوتا ہے اس کا اینٹی کلائمکس یہ خاموشی ہے۔ توعید کے دن کوئی چار بجے کا وقت ہو گا کہ جب میں فیڈرل بی ایریا کے ایک پٹرول پمپ پر تھا، ، جتنی دیر میں گاڑی میں ایندھن بھرا جا رہا تھا، میں سڑک سے گزرنے والے لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔ کبھی موٹر سائیکل پر کوئی صاحب اپنے چھوٹے سے بچے کو لے کر جاتے، کسی کے ہاتھ میں غبارہ، کسی نے رنگین چشمہ لگایا ہوا، زرق برق لباس اور خوشی دیدنی تھی۔
اور اسی وقت میری نظر ان دو بچوں پر پڑی جن کو دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے ان کی زندگی میں عید آئی ہی نہیں۔ اپنے ارد گرد موجود رونق اور زندگی سے بے نیاز وہ اس سائن بورڈ کے نیچے سو رہے تھے۔ کمپنی کے اشتہار میں موجود نوجوان جس پر سینکڑوں دفعہ نظر گئی ہو گی، آج ایسا لگ رہا تھا جیسے معاشرے پر ایک بھرپور طنز کر رہا ہو۔ جیسے کہہ رہا ہو، ‘بہت اعلیٰ کام کر رہے ہیں آپ لوگ ان بچوں کو نظر انداز کر کے’۔
آپ کہیں گے کہ میں نے بھی تو صرف تصویر کھینچنے پر ہی اکتفاء کر لیا۔ میں نے کون سے ان کو نئے کپڑے دلا دیئے۔ یا ان کو کھانا کھلا دیا، یا ان کو پیسے ہی دے دیئے کہ وہ کچھ خرچ کر لیں۔ درست۔ اور میں اس بات میں اپنے آپ کو قصور وار سمجھتا ہوں مگر مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں ان کو نیند سے اٹھا کر پوچھ لوں کہ ‘بیٹا کھانا کھایا ہے کچھ’۔ اور ایک دن کے لیے ان کو کھانا کھلا کر یا کپڑے دلا کر ان کو دوبارہ اس زندگی میں مستقل طور پر چھوڑ دوں۔ اور فی الحال کوئی ایسا بندوبست کرنا ممکن نہیں لگ رہا جس میں ایسے بچوں کا کوئی مستقل سہارا ہو سکے۔
ناچار ایک ایسی حرکت کرنا پڑی جو مجھے خود پسند نہیں۔ تصویر کھینچ کر فیس بک پر لگا دی اور اپنا ‘فرض’ پورا کیا!!!۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کہتے ہیں عید تو بچوں کی ہی ہوتی ہے۔ اور واقعی بچے ہی اس دن سب سے زیادہ مصروف ہوتے ہیں۔ کبھی دادا کو سلام کر کے عیدی حاصل کی، کبھی نانا سے پیار اور عیدی۔ کبھی چاچا کبھی ماموں، کبھی خالہ تو کبھی پھوپھی۔ غرض ایک متوسط طبقے کے بچے کے پاس عید کے تین دنوں میں اچھی خاصی رقم جمع ہو جاتی ہے میرے اندازے کے مطابق اتنی رقم کہ جو عام دنوں میں ان کے اپنے گھر میں دو سے تین دن کا راشن اور گوشت ، سبزی وغیرہ کا انتظام کر سکے۔ ظاہر ہے بچوں کے اوپر یہ نا روا بوجھ ڈالنے کو میں نہیں کہہ رہا، مگر اتنا  ضرور ذہن میں آتا ہے کہ بچے ان پیسوں کا کرتے کیا ہیں؟ کھانا پینا تو ابا کے پیسوں سے ہی ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ بچےعموماً ان پیسوں سے کچھ خاص نہیں کرتے، بہت ہو گیا تو بہت سی ‘چیز’ کھا لی اور بس۔ بہت سے ماں باپ وہ پیسے بچوں سے لے کر، اس میں کچھ پیسے جوڑ کر، ان کے لیے کوئی اچھی سی چیز لے لیتے ہیں۔
مگر دیکھنے کی بات تو یہ ہے کہ عید ہوتی کیا ہے؟ عید تو رمضان میں اللہ کے حضور مسلمانوں کے روزوں، نمازوں اور قربانیوں کے معاوضہ کا دن ہے۔ جب اللہ تعالیٰ  اپنے بندوں سے کہتے ہیں کہ جاؤ میں نے بخش دیا تمہیں۔ تو ہم مسلمان خوشی مناتے ہیں۔ مگر اس خوشی میں اگر ہم وہ پورا سبق ہی بھول جائیں جو رمضان میں سوکھتے حلق اور خالی پیٹ میں سیکھا تھا تو یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔
رمضان میں ثواب کئی کئی گنا بڑھ کر ملتا ہے۔ اسی لیے لوگ جوق در جوق، بلکہ زبردستی، لوگوں کا روزہ کھلوانے کے لیے پورے مہینےسڑک پر افطار کراتے ہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ باقی سال اتنا ثواب نہیں دے سکتے۔ اخلاص سے کیئے گئے نیکی کے کام کو اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے سات سو گنا تک بڑھا دیتے ہیں۔ اور یہ بھی صرف ہمارے سمجھانے کے لیے ہی ہے۔ تو کیا ہی اچھا ہو کہ وہ لوگ جو  رمضان میں افطاریاں کراتے ہیں، باقی سال بھی اس کام کو کسی نہ کسی طرح جاری رکھیں۔

ناداروں کی دیکھ بھال کی اصل ذمہ دار حکومت وقت ہے۔ حضرت عمر ؓ کا وہ قول تو سب نے ہی سنا ہے کہ اگر فرات کے کنارے کتا بھی بھوکا مرتا ہے تو اس کا جواب دہ امیر المومنین ہے۔ تو ان بچوں کی اصل ذمہ داری تو حکومت پر ہی آتی ہے۔ اور اگر حکومت نہیں کرتی تو یہ لوگوں کی اولین ذمہ داری ہے کہ ہر ممکن طریقے سے حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرائیں۔

لیکن اگر حکومت کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی، اور جو کہ واقعی نہیں رینگتی، تو یہ ذمہ داری معاشرے پر منتقل ہوجاتی ہے کہ اس معاشرے کے غریبوں کی مدد کی جائے۔ سب سے پہلا فرض رشتہ داروں اور پڑوسیوں کا ہے کہ وہ دیکھیں کہ ان کے قریب کے لوگوں کا یہ حال کیسے ہے۔  یہی اسلام کے معا شی نظام کی جڑ ہے، دولت  کا معاشرے میں ایسے گھومنا کہ جس میں دولت اہل ثروت میں ہی نہ قید ہو جائے، اور ایسے کہ ہرشخص اپنے قریبی رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی خبر گیری کرے۔  اسلام کے معاشی نظام کی جڑ بنیاد میں مقصد معاشرے کی فلاح ہے۔
ایک عرصے سے یہ خیال ذہن میں ہے کہ یہ کام سب سے بہتر طریقے سے مساجد میں ہو سکتا ہے۔ ہماری اکثر مساجد میں اہل ثروت لوگ اپنی جیب سے بڑے بڑے خرچے کرتے ہیں۔ ائیر کنڈیشنر یا بڑے جہازی سائز پنکھے تو اب مساجد میں عام ہیں۔ مساجد میں بڑے بڑے منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ جاتے ہیں مثلاً مینار اور گنبد ۔ مگر انہی مساجد میں نماز کے بعد اگر کوئی مانگنے کھڑا ہو جائے تو اس کو ڈانٹ کر چپ کرا دیا جاتا ہے کہ اس بارے میں حکم یہی ہے اور یہی کرنا چاہئے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ چپ نہ کرایا جائے، میں صرف یہ کہتا ہوں کہ ہم دور صحابہ میں نہیں ہیں جب ایک حقیقی فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی جا چکی تھی تو اس سلسلے میں اس شخص کے ساتھ نرمی سے پیش آیا جائے، اس کی تذلیل نہ کی جائے۔ دوسرے یہ کہ مساجد میں ایک مد باقاعدہ اس کام کی ہونی چاہیے۔ جس میں محلے میں جو غریب ہیں ان کے لیے کم از کم راشن  اور دوسری بنیادی چیزوں کا انتظام ہونا چاہیے۔ اگر کوئی مانگنے والا اس مسجد میں آئے تو اس کو امام صاحب سے یا مسجد انتظامیہ کے فرد سے رابطہ کرنے کہا جائے۔ اور بات کیونکہ محلے کی ہی ہے تو ان کے گھر کے حالات سب کے سامنے ہونگے۔ ہر مسجد میں یہ طے ہو کہ اپنے پڑوسی کی ہی مدد کی جائے گی۔ اگر کسی اور علاقے سے کوئی ایسا شخص آتا ہے جو واقعی ضرورت مند ہے تو مسجد کی انتظامیہ اس علاقے کی مسجد سے اس شخص کا رابطہ قائم کروائے۔

بظاہر یہ بہت سادہ بات ہے، مگر حقیقتاً اس میں بہت سی پیچیدگیاں ہیں۔ جن کا ادراک ہر اس شخص کو ہے جس نے مساجد کے معاملات کو تھوڑا بہت دیکھا ہے۔ ان مسائل کا تذکرہ کرنا ایک باقاعدہ الگ مضمون کا متقاضی ہے۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ ہم من حیث القوم اگر بے حس ہو گئے ہیں تو رمضان اس بے حسی سے جاگنے کا ایک بہت بڑا موقع ہوتا ہے۔ مسجد اسلامی معاشرے کا ایک بہت اہم ستون ہے۔ اس کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور کیا جانا چاہیے۔ تو اگر یہ کام ہو سکتا ہے، اور ظاہر ہے کسی اکیلے شخص کا یہ کام ہے ہی نہیں تو ، یہ کام کرنا ضرور چاہیے۔ جو بچے آج سڑکوں پر ایسے گھوم رہے ہیں۔ کل کو یہی بڑے ہوکر اگر غلط ہاتھوں میں پڑ گئے تو خدا نخواستہ ان سےمعاشرے کو ہی خطرہ لا حق ہو جائے گا، اور ہم ہی میں کچھ لوگ کہیں گے، کہ یہ لوگ کہاں سے آتے ہیں۔ یاد رکھیے، مجرم صرف جرم کو کرتا ہے، اسے جرم تک معاشرہ ہی لے کر جاتا ہے۔
اپنے بچوں میں ایثار اور قربانی کا جذبہ بیدار کرنا ہمارا ہی کام ہے۔ یہ کیسی عید ہوئی جس میں ہمارے بچے تو اتنا ‘کما’ لیں کہ ان کو خود سمجھ نہ آئے کہ کرنا کیا ہے ان پیسوں کا، اور یہ بچے کچھ بھی نہ پائیں جبکہ ان کے گھر میں بھوک ایک بہت بڑی حقیقت کے طور پر روزانہ جواب مانگتی ہو۔ تو اپنے بچوں سے ایسے بچوں کا سامنا کرائیں۔ ان کو پتہ ہونا چاہیئے کہ ان کو کیسی کیسی نعمتیں ملی ہوئی ہیں۔ ان کو پتہ چلنا چاہیئے کہ جن چیزوں کو وہ اپنا حق سمجھتے ہیں، ان میں سے درحقیقت کچھ بھی ان کا حق نہیں۔ اور ان کو پتہ چلے کہ اصل خوشی خود کھانے میں نہیں، بلکہ دوسروں کو کھلانے میں ہے۔ تب شاید ایسی عید آئے جس میں واقعی سب بچے خوش ہوں۔ کوئی بچہ عید کے دن محروم نہ ہو۔
مجھے اس عید کا انتظار ہے!۔

یہ وہ سحر تو نہیں

Posted in Islam, protest, Rants by baigsaab on July 10, 2013

جولائی کے مہینے میں امریکہ ہی نہیں دنیا کے  تیئیس  دیگر ممالک  بھی اپنا  یوم آزادی   مناتے ہیں۔  ارجنٹائن، بیلارس، وینیزویلا اور پیرو  اور خود امریکہ سمیت  ان  میں سے اکثر ممالک نے یہ آزادی بیرونی طاقتوں  کے شکنجے سے حاصل کی تھی۔  امریکہ کے یوم آزادی کی رات تحریر اسکوائر میں لوگوں کو اچھلتے کودتے دیکھ کر  ایسا لگ رہا تھا کہ مصر نے کسی ایسے ہی  ظالمانہ   استعماری  نظام سے نجات حاصل کرلی ہے۔ یہ اس لیے بھی عجیب تھا کیونکہ مصر  نے اگر حسنی مبارک کو تیس سال برداشت کیا تھا اور اس سے پہلے انور السادات اور جمال عبد الناصر اور شاہ فاروق وغیرہ   کو  بھی  برسوں جھیلا تھا تو   اس بار جانے والی حکومت تو نہ فوجی آمریت تھی اور نہ   استبدادی بادشاہت۔ یہ لوگ  تو ایک ایسی حکومت کے خاتمے کی خوشی منا رہے تھے جس  کو ان کے ملک کی  ‘اکثریت’ نے  مرحلہ وار انتخابی عمل کے بعد منتخب کیا تھا۔ محمد مرسی کو  حسنی مبارک سے تشبیہہ دینے والوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ  مرسی نے تو نہ مخالفین سے جیلیں بھرنے کی پالیسی اپنائی،  نہ اپنے مخالفین کے ہجوم پر فائرنگ کروائی ،  نہ  خود پر تنقید کرنے والوں  کو اغواء کروایا،   نہ اپنی ذات کو حرف آخر  اور عقل کل سمجھا(حالانکہ مصر کے نئے منظور شدہ آئین کے بارے میں  پھیلایا گیا  عام تاثر یہی ہے) اور نہ اپنے سے مخالف نظریات کے پرچارکوں کے لیے عرصہ حیات تنگ کیا۔  مرسی پربظاہر الزام ہے تو صرف یہ کہ  وہ دوسرا ‘مبارک’ بننے جا رہا تھا جبکہ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔

حقیقت اگر ہے تو  یہ کہ قاہرہ میں خوشیاں مناتے لوگ درحقیقت ایک اسلام پسند حکومت کے خاتمے کی خوشی منا رہے ہیں۔  حقیقت  اگر ہے تو یہ  کہ جب شراب خانوں پر پابندی اور فحاشی پر قدغن لگی تو مصر کے ان  ‘لبرل’ لوگوں  نے  اسی حسنی مبارک کے تیس سالہ دور استبداد کو مرسی کے ایک سالہ دور    استقبال پر ترجیح دی۔  حقیقت اگر ہے تو یہ ہے کہ  مصر، الجزائر، ترکی ، فلسطین اور دنیا بھر میں جہاں بھی اسلام پسند  ‘جمہوری’ حکومتوں کا خاتمہ ہوا ہے   اس کو  مغربی جمہوری ملکوں کی  حمایت  حاصل رہی ہے۔  اور حقیقت اگر ہے تو یہ کہ  بارہ سال  میں پہلی دفعہ کسی حکومت نے اسلام  کو  ریاست کو امور میں مدخل کرنے کے لیے محض چند ہی اقدام کیے تھے   اور اس  کو بھی اسی طرح طاقت کے ساتھ ہٹا دیا گیا جس طرح بارہ سال پہلے طالبان کو ہٹا دیا گیا تھا۔  حقیقت یہ ہے کہ اوبامہ نے اپنی خاص منافقت سے کام لیتے ہوئے جو الفاظ  اپنی تقریر میں رکھے ہیں ان میں ‘تشویش’ اور ‘جمہوری عمل’ کے الفاظ تو ہیں  مگر یہ کہیں نہیں کہا کہ  مصری فوج کا یہ عمل   غلط ہے۔ حقیقت اگر ہے تو یہ کہ اس موقع  پر’ لبرلوں اور سیکولروں ‘ کی منافقت کا پردہ چاک ہو گیا ہے۔  الکُفرُ  مِلّۃٌ  واحدۃٌ   کی ابدی حقیقت سے ہم کو تو  نبی رحمت ؐ  نے  پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا، یہ تو ہمارے ہی لوگ تھے جو  دوڑ دوڑ کر ان میں گھسے جاتے تھے۔

لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ  الاخوان المسلمون کی حکومت  کے خاتمے میں فیصلہ کن کردار فوج نے نہیں، بلکہ  اسلامی قوتوں نے ادا کیا۔ مصر کیا  پوری دنیا کی تاریخ میں پہلی بار کسی  بڑے ملک میں ایک  اسلامی جمہوری جماعت اس قدر  اکثریت کے ساتھ منتخب بھی  ہوئی اور حکومت قائم بھی کر سکی   مگر  جب وہ گئی تو اس کا ساتھ دینے سے ان کے  اسلامی  اتحادیوں نے نہ صرف انکار کر دیا بلکہ  بالفعل ان کے مخالف کیمپ  میں  جا کھڑے ہوئے۔  جامعۃ الازہر  کے علماء نے ایک  بار  پھر سیکولر  عناصر کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں مدد دی  اور اس شخص کے خلاف چلے گئے جس نے کئی دہائیوں میں پہلی بار اقتدار کے ایوانوں میں اللہ کا کلمہ بلند کیا۔ایک بظاہر سیکولر مگر   پیدائشی عیسائی  بلکہ یہودی عدلی المنصور کی حلف برداری میں  غیر مذہبی جنرل الفتاح سیسی کا ہی نہیں ، مذہبی  النور  پارٹی  اور  انتہائی قابل احترام  جامعۃ الازہر   کا بھی بھرپور کردار ہے۔

مصریوں کے بارے میں ایک تاریخی قول  چلا آتا ہے، رِجال ٌ   تَجمعھم الطّبول و ھم مع من غلب ۔ (مصر کے  مرد  ایسے ہیں جن کو ڈھول کی تھاپ اکھٹا کرتی ہے اور وہ اس کے ساتھ ہیں جو غالب آجائے) ۔ یہ کوئی مصر کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔  ہماری عوام بھی مجمع بازی میں کافی خود کفیل ہے۔  بس بازی گر کے پاس ‘مسالہ’ اچھا ہونا چاہیے، لوگ اپنے اصل مسائل بھول کر  نہایت  خلوص کے ساتھ  ان  ڈھولچیوں کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔   پاکستان میں عام لوگوں نے مصر کے حالات پر کوئی خاص ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ شاید اس لیے کہ اس کو الیکٹرونک میڈیا پر خاطر خواہ وقت نہیں دیا گیا۔  پرویز رشید صاحب جو حکومت پاکستان کے ترجمان ہیں، انہوں نے  کہا کہ پاکستان کی طرف سے  سرکار ی ردعمل تین سے چار دن میں آئے گا، باوجود اس کے کہ ۱۴ سال پہلے وہ اور ان کے قائد بعینہ اسی عمل سے خود گزر چکے ہیں۔ خلیجی ریاستوں کی طرف سے   تقریباً وہی ردعمل ظاہر کیا گیا ہے جو انہوں نے  اکتوبر  2001  میں افغانستان اور  مارچ 2003 میں  عراق پر امریکی  جارحیت میں  دیا تھا، یعنی  امریکی لائن کی حمایت۔

پاکستان کے   تناظر میں  اگر ہم  مذہبی اور غیر مذہبی   قوتوں کی صورتحال کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے  کہ  لبرل اور سیکولر عناصر  میں اسلامی قوتوں سے زیادہ  ایکا ہے۔  سیکولروں  کی مجبوری یہ ہے کہ  وہ ایک جمہوری حکومت کے خاتمے پر خوشی کا اظہار بھی  نہیں کر  سکتے لہٰذا انہوں نے  اس فوجی بغاوت کی  ذمہ داری الٹا الاخوان پر ڈال دی  ہے کہ اس نے   مصر کی تاریخ میں پہلی بار ایک  جمہوری طور پر منتخب حکومت کی حیثیت سے  اپنی عوام کو  مایوس کیا اور فوج کو  مداخلت کا جواز فراہم کیا۔  ایاز امیر صاحب نے اپنے کالم میں  لکھا کہ مسلم دنیا کی مشکل ہی یہ  ہے کہ یہ  اپنی علاقائی  حدود کی بنیا د پر سوچتے نہیں۔  انہوں نے مرسی  کا تقریباً مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ اپنا گھر سنبھل نہیں رہا تھا اور  وہ  شام کے حالات میں مداخلت کر رہے تھے۔ دوسری جانب  ہمارے مذہبی حلقے   مصر کی تازہ ترین صورتحال میں محض پوائنٹ اسکورنگ کرتے رہ گئے ہیں، الّا ماشا ءاللہ۔  جنہوں نے  اپنی جدوجہد کے لیے انتخابی میدان منتخب کیا تھا وہ  مصر میں  ‘جمہوری’ حکومت کے خاتمے پر مظاہرہ کر رہے  ہیں۔ اور جنہوں نے انتخابی میدان منتخب کرنے کو غلطی قرار دیا وہ  اس فوج کشی کو جمہوری عمل کی ناکامی کا معنی پہنا رہے ہیں۔  واضح رہے کہ جس وقت الاخوان کی حکومت آئی تھی تو  اس وقت  بغلیں بجانے اور  بغلیں جھانکنے کی ترتیب اس کے برعکس تھی۔ سہ ماہی ایقاظ  نے اپنے تازہ مضمون میں  طرفین کے اچھے خاصے لتے لیے ہیں کہ  پہلی بات تو یہ کہ کسی کی ناکامی، ہماری کامیابی کی  ضمانت نہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ یہ وقت ایک دوسرے سے لڑنے کا نہیں  ہے۔ بلکہ  اس وقت پہلے سے زیادہ ایک نظر آنے کی ضرورت ہے۔

مصر میں فوجی بغاوت کے بعد مغربی  لکھاریوں کے آنے والے   مضامین اس حقیقت کی غمازی ہی نہیں کر رہے بلکہ ببانگ دہل اس بات  کا اعلان کر رہے  ہیں کہ ان کے نزدیک مسئلہ اسلام ہے، سیاسی یا فوجی اسلام نہیں۔  ڈیوڈ بروکس کے نزدیک   

‘اہم چیز یہ ہے کہ  ایسے لوگوں کو اقتدار سے باہر کر دیا جائے چاہے اس کے لیے  فوجی  بغاوت ہی کا استعمال کیوں نہ کرنا پڑے۔(اصل)   ہدف یہ ہے کہ سیاسی اسلام کو  کمزور کر دیا جائے  چاہے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے۔ ‘

مصر میں   لبرلوں کے لیے روشنی کے مینار کی حیثیت رکھنے والے البرادعی  نے  کہا ہے کہ انہیں

اپنے  مغربی دوستوں کو اس بات پر راضی کرنے کے لیے کافی محنت کرنی پڑی  کہ مصر میں جو کچھ فوج نے کیا وہ انتہائی ضروری تھا۔

حاصل وصول ایک  ہی بات ہے،  الجزائر   اور مصر میں  حکومت سیاسی طریقے سے حاصل کی جائے یا اٖ فغانستان  میں   طالبان کے انقلاب کے ذریعے،  اگر حکومت  نے   ذرا بھی  کوشش کی   کہ اسلام کو  ایک جز و کے طور پر ہی سہی لوگوں کی سیاسی زندگی میں داخل کر دیا جائے  تو وہیں اس کے اوپر  ایک ایسی کاری ضرب لگائی جائے گی کہ  ان کی تحریک دس سال پیچھے جا کھڑی ہو گی-  اگر لوگوں کی اکثریت اسلام چاہ رہی ہے اور حکومت نہیں چاہ رہی تو چاہے   مظالم کے پہاڑ ہی  کیوں نہ توڑ دیے جائیں، جیسے شام میں ہو رہا ہے، لبرلوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگے گی۔   ترکی میں جو کچھ ابھی ہو رہا ہے   وہ   اگر  آج سے پانچ سال پہلے ہوتا تو  شاید ترکی میں اردگان حکومت کا بھی  خاتمہ ہو چکا ہوتا۔  ان لوگوں کے خیال سے مذہب کی جگہ سیاست نہیں ہے، حکومت نہیں ہے،  معیشت نہیں ہے،  بلکہ معاشرت بھی نہیں ہے، بس مذہب  ایک انفرادی شے ہے ! اب یہ ان کو کون سمجھائے کہ  ؏ جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔ فرد سے ہی سیاست ہے، فرد سے ہی  حکومت، اسی سے معیشت اور اسی سے معاشرت۔ تو سیدھے سبھاؤ فرد کو ہی کیوں نہیں نکال دیتے  باہر؟

کیا اب بھی کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اسلام پسندوں پر عرصہ حیات تنگ کردینے کی آخر وجہ کیا ہے؟ اس چیز کو دیکھنے کے لیے کوئی عقابی نگاہیں نہیں چاہییں کہ مصری فوج نے مرسی سے اقتدار چھیننے سے پہلے ہی  غزہ کی سرنگیں بند کرنے کا کام شروع کر دیا تھا۔  اقتدار میں آنے کے بعد اخوان کے ہمدرد  چار چینل بند کر دیئے گئے۔  الاخوان المسلمون کے دھرنے پر فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں  تیس سے اوپر لوگ شہید اور سو تک زخمی ہو گئے۔  اس پر نہ کوئی جمہوری روایت  پامال ہوئی نہ انسانی حقوق، کیونکہ  جمہوری روایات کے امین  تو صرف سیکولر ہیں، اور انسانی حقوق کے علمبردار صرف لبرل۔ مصر میں تو خیر براہ راست امریکی ( یعنی صیہونی) مفادات پر  زک پڑ رہی تھی  اس لیے وہاں  تو  انگریزی ترکیب کے مطابق یہ  ‘کب؟’ کا معاملہ تھا ‘اگر’ کا نہیں-  لیکن باقی دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟   یورپ میں عورتوں کو  زبردستی بے پردہ کیا جا رہا ہے۔  حجاب پہنی ہوئی عورت کو بھری عدالت میں قتل کر دیا جاتا ہے۔  داڑھی والوں کو ائرپورٹ پر  لائن سے نکال کر تلاشی لی جاتی ہے۔  پکڑا جانے والا اگر فیصل شہزاد ہو ( صحیح یا غلط کی  بات نہیں) تو  وہ تمام مسلمانوں کا  نمائندہ ، اسلام دہشت گردوں کا مذہب اور تمام مسلمانوں کے لیے  شرمندہ نظر آنا لازمی۔  لاکھوں کے قتل کا  متحرک  ہٹلر، ہزاروں کے خون کا ذمہ دار سلوبودان میلاسووچ،  درجنوں کو اپنے  دو ہاتھوں سے مارنے والا اینڈرز بریوک  مگر عیسائیوں  کا  نمائندہ نہیں، یہ ان کا ذاتی فعل ہے جس کی  کسی عیسائی کو صفائی پیش کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ پھر ہمارے اپنے معاشروں میں اسلام پسند جس تضحیک کا نشانہ بنتے ہیں وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔  جس نے داڑھی رکھ لی وہ منہ چھپا کر پھر رہا ہے اور جو  رات کو  ڈانس پارٹی سے ہو کے آیا ہے اس  کی فیس بک پروفائل پر likes ہی likes ۔  جہاں باپ  نے کسی دینی اجتماع میں جانا شروع کیا بچوں کے منہ لٹکنے شروع ہو گئے۔  انصار عباسی اور اوریا مقبول جان جیسے  کالم نویس   لبرل طبقہ کی ہنسی کا براہ راست نشانہ بنتے ہیں۔

  یہ کیا ہے؟  یہ  دراصل وہ فطری ترتیب  ہے جس پر اللہ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔  دنیا میں ازل سے ابد تک  درحقیقت صرف دو ہی گروہ ہیں۔  ایک کا نام حزب اللہ، دوسرا حزب الشیاطین۔  فی الوقت  دنیا   چاہے یا  نہ چاہے اپنے آپ کو ان دو  گروہوں  میں تیزی سے تقسیم کر رہی ہے۔   جس کو ہم grey area  کہتے ہیں وہ  اب بہت کم رہ گیا ہے اور اس طرح کے اقدامات کر کے  یہ لادین طبقہ چاہ رہا ہے کہ  یہ تقسیم  بالکل واضح ہو جائے۔  اپنی دانست میں وہ  اپنی دنیا پکی کر رہے ہیں مگر در حقیقت اس سے بڑا خسارے کا سودا  کوئی انسان نہیں کر سکتا۔  و انتم لا تشعرون ! لیکن تم تو  سمجھ ہی نہیں رکھتے! کسی سیکولر سے مگر اور توقع کیا کی جا سکتی ہے، اس کا ایمان دنیا میں ہے وہ اپنے ایمان  کے مطابق کام کر رہا ہے۔  مسئلہ تو ہمارا ہے، ان لوگوں کا جن کا دعوی ٰ تو یہ ہے کہ  ایمان ہمارا اللہ پر ہے، مگر عمل   اس دعوے کی نفی کرتا جا رہا ہے۔ عشق رسولؐ کے مدعی بھی ہیں ، نعت خواں، حافظ بھی ہیں مگر صبح اٹھتے ہی  سب سے پہلے اپنے چہرے سے سنت نبویؐ  کو کھرچ کر  کچھ تو کچرے میں ڈال دیتے ہیں اور کچھ سیدھا گٹر میں بہا دیتے ہیں۔  خواتین صحابیات  مبشرات   ؓ  کی مثالیں  دیتی ہیں مگر انہی کے اصرار پر مرد حرام کماتے ہیں۔  سود پر ہماری معیشت کی بنیاد ہی نہیں ہے، یہ اس  کی جان ہے، ہمارے  نئے نویلے   وزیر خزانہ صاحب نے  تو اس بجٹ میں  انٹرسٹ کا لفظ ہی استعمال نہیں کیا، سیدھا شرح سود کی بات کی۔  تو ہم تو خود اپنے عمل سے ثابت کر رہے ہیں  کہ اسلام فی زمانہ کوئی قابل عمل  چیز نہیں، نہ  انفرادی زندگی میں ، نہ اجتماعی زندگی میں۔ تو   اگر ڈیوڈ بروکس یہ کہہ دیتا ہے کہ  ‘نا اہلی  دراصل بنیاد پرست اسلام  کے   دانشورانہ  DNA  میں  رچی بسی ہوئی ہے’ تو  اس نے  کیا غلط کہہ  دیا ؟

مصر کے حالیہ  واقعات نے  اگر کم از کم بھی یہ کر دیا کہ ہمارے  لوگوں کی  آنکھوں سے   غفلت  کی پٹی کھول دی تو یہ بہت بڑی بات ہو گی۔یہ بات کہ شدت پسندی دراصل اسلام پسند نہیں بلکہ سیکولر اور لبرل طبقہ کرتا ہے، اگر سمجھ آ گئی تو یہ ایک نہایت بڑی بات ہوگی۔ہمارا اشارہ ان لوگوں کی طرف نہیں ہے جو  صرف دینی مزاج کے لوگ نہیں یا جو نماز نہیں پڑھتے یا روزہ نہیں رکھتے۔ ہمارا اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جن کو ان سب کے ساتھ ساتھ   یہ  بھی برا لگتا ہے کہ  ہمارے کھلاڑی ‘ان شاء اللہ ‘ کیوں کہتے ہیں۔  ہمارے لوگ اب اللہ حافظ کیوں کہتے ہیں۔  رمضان کو Ramadan کیوں بولا جا رہا ہے۔   ان میں سے اکثر وہ لوگ ہیں جو اپنے ‘حق’ کو پانے کے لیے جھوٹ کا سہارا لینے میں ذرا عار محسوس نہیں کرتے۔  یہی تو ڈیوڈ بروکس نے کہا ہے، ‘چاہے کسی طریقہ سے بھی بس  سیاسی اسلام کو  ہرا دو’۔ چاہیں تو ایک  جھوٹی ویڈیو چلا کر سوات کے امن  معاہدے کو پارہ پارہ کر دیں۔ چاہیں تو لال مسجد کے خلاف واویلا مچا کر وہاں آپریشن کرا دیں اور پھر ٹسوے بہائیں کہ یہ کیا کر دیا؟  چاہیں تو  صوفی محمد کے خلاف اسمبلی کے فرش پر چلا چلا کر ہاتھ ہلا ہلا کر   تقریریں کریں ۔  چاہیں تو فحاشی کے  بے محابا پھیلاؤ سے صاف مکر جائیں اور اسلام پسندوں پر ثقافتی دیوالیہ پن کی تہمت چسپاں کر دیں۔ یا  جیسے مصر میں ہوا کہ ایک  منتخب  جمہوری حکومت کو  اٹھا کر باہر پھینک دیں اور  اپنے  پیارے البرادعی کو   انتہائی  ‘جمہوری’ طریقے سے نگران حکومت کا حصہ بنوا دیں۔  یقین کریں ، ایسا لگتا ہے کہ یہ دن کو دن  اور رات کو رات بولتے ہیں تو  اس کے پیچھے ان کا مفاد ہوتا ہے۔

اس  سارے  منظر نامہ سے اگر ہم نے اتنا ہی سمجھ لیا تو یہ بھی کوئی معمولی فائدہ نہ ہو گا کہ  ان کی آزادی ہماری آزادی نہیں۔  ان کی شام  ہماری  شام نہیں ، اور ان کی سحر ،ہماری سحر نہیں ۔

 فاعتبرو۱ یا اولی الابصار۔

بُھنگانہ، ابابیل اور ڈرون

Posted in Islam, Social revolution by baigsaab on June 28, 2013

اندلس کے طوائف الملوک میں وہ پہلی حکومت جس نے باقاعدہ عیسائی اقوام سے دوسرے مسلمانوں کے خلاف مدد مانگی وہ کوئی اور نہیں قرطبہ  کی حکومت تھی۔  خلافت اندلس کا دارالخلافہ قرطبہ، جہاں سینکڑوں سالوں سے کسی نے کسی  غیر مسلم کو  تلوار سونت کر چلتے نہیں دیکھا تھا، وہاں  اب عیسائی فوجی نام نہاد مسلمان حکمرانوں کے جنگی عزائم کو آگے بڑھانے کے لیے  کرائے کے فوجیوں کے طور پر لڑ رہے تھے! اندلس میں  اموی خلافت  کمزور  ہوئی تو  فوج کے مختلف سرداروں نے اپنے اپنے علاقوں میں اپنی حکومت کا اعلان کردیا۔  یہ علاقے  ’طائفہ’ کہلاتے تھے اور ان کے بادشاہ  ، ‘ملک الطائفہ’، اکثر و بیشتر صرف اپنے علاقے بڑھانے کے چکر میں  رہتے تھے۔   اتحاد امت اور اتحاد بین المسلمین جیسے الفاظ ظاہر ہے توسیع پسندی  اور ہوس ملک گیری کے ماروں کے سامنے نہایت بودے معلوم ہوتے ہیں۔  تو  ان بادشاہوں کی تلواریں بھی آپس میں ہی چلتی تھیں۔ اور اس میں ان کو مدد ملتی تھی کاسٹائل اور دوسری عیسائی ریاستوں سے۔  یہ مدد فوجیوں کی صورت بھی ہوتی تھی، اور کبھی کبھار براہ  راست مسلمان بادشاہ کی طرف سے  عیسائی فوجیں ہی حملہ آور ہو جاتی تھیں۔ ‘تقسیم کرو اور حکومت کرو’ کی یہ اندلسی مثال تھی۔  ان خدمات کے عوض آئیبیریا کے عیسائیوں کو مال، دولت، جائداد  یا جو وہ مانگیں، دیا جاتا تھا۔  نتیجہ یہ کہ عیسائی طاقت بڑھتے بڑھتے اتنی ہو گئی کہ ان نا عاقبت اندیش حکمرانوں کو سانس لینی دوبھر ہو گئی۔   یہ آج سے ٹھیک ایک ہزار سال پہلے کی بات ہے۔

آج کا حال دیکھیں۔ پاکستان کے شمالی علاقوں ، جنہیں نہ جانے کیوں پہلے بھی  ’علاقہ غیر’  ہی کہا جاتا  تھا، میں ایک جنگ ہو رہی ہے۔  ’ہماری جنگ’ !۔ کہنے کو پاکستان کی سرزمین کے دشمن اس علاقے میں چھپے بیٹھے ہیں۔  وہ دشمن جو عام  آبادی میں ایسے گھل مل گئے ہیں کہ وہاں ان کی شادیاں بھی ہوئی ہوئی ہیں اور اولاد بھی۔   ایک ایسا علاقہ جس میں پاکستان کے دوسرے علاقوں سے کوئی نہیں جا سکتا اور وہاں سے پاکستان کے دوسرے علاقوں میں کوئی نہیں جا سکتا۔  بیچ میں اتنی چوکیاں اور اتنے پہرے ہیں کہ سفر کا انجام اکثر و بیشتر ناکامی ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ وہاں سے کسی خبر کا آجانا بجائے خود ایک عجوبہ  ہے کجا یہ کہ اس خبر کی تصدیق بھی ہو جائے۔ ایسے میں وہاں پر  فضائی حملے جاری ہیں۔ مقصد ان حملوں کا یہ ہے کہ ‘دہشت گردوں’ کو مار دیا جائے۔  یہ حملے کون کر  رہا ہے، کیوں کر رہا ہے اور کیا یہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو رہے ہیں ۔ یہ سوال کر لینا جتنا آسان ہے اس کا جواب تلاش کرنا اتنا ہی مشکل۔

2004 میں ڈامہ ڈولہ میں ایک  میزائل  حملے میں  ’ ملا نیک محمد ‘ کا انتقال ہو گیا۔  اس وقت کسی کی کچھ سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ یہ میزائل آیا کہاں سے۔  مگر ہمارے صدر پرویز صاحب نے  کمال پھرتی سے اس کی ذمہ داری  اپنے ادارے کی طرف سے قبول کرتے ہوئے  کہا کہ یہ ہم نے  کیا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ ہم نے ایک ایسے شخص کو کیوں مار دیا جو  بعد میں ملنے والی اطلاعات کے مطابق ریاست سے باقاعدہ مذاکرات پر آمادہ تھا،  یہ تفصیلات کہ حملہ ہوا کیسے اس کہانی میں ہی کافی جھول تھے۔  بعد  ازاں  جب جب اس طرح کے حملے ہوتے رہے تو  اسی طرح وہ اور ان کے کارندے یہ ذمہ داریاں قبول کرتے رہے۔  رفتہ رفتہ بات کھلنا شروع ہوئی کہ یہ حملے  دراصل امریکی  ڈرون جاسوس طیارےکرتے ہیں۔  یہ  ڈرون  اول اول تو تھوڑے عرصے کے لیے نظر آتے تھے۔ مگر اب یہ    پورا دن  وزیرستان کے آسمان پر موجود رہتے ہیں۔  ان طیاروں سے  ایک مہینے میں اوسطاً  چھ سے سات حملے ہوتے ہیں۔ ان حملوں میں مرنے والے شہریوں  کے اعداد و شمار میں اتنا فرق ہے کہ   سرکاری شمار  دس سے کم اور  غیر سرکاری  کم و بیش ایک ہزار ہے۔ وجہ اس فرق کی کیا ہے یہ جاننے کے لیے دیکھیئے Living  Under Drones (livingunderdrones.com)  نامی دستاویز سے کچھ معلومات۔

یہ دستاویز  Stanford اور NY University  کے  اشتراک سے بنائی گئی ہے۔  قریباً نو ماہ کی ریسرچ اور درجنوں متاثرین سے  گفتگو  کی بنیاد پر بنائی گئی یہ رپورٹ  دراصل ڈرون  کے استعمال کے انسانی نفسیات پر پڑنے والے اثرات کو اجاگر کرنے کی ایک کوشش ہے۔  اسی  ضمن میں  امریکی اور پاکستانی دونوں طرح کے حکومتی دعوؤں کی بھی قلعی کھول دی گئی ہے۔

وزیرستان میں ڈرون کوابابیل بھی کہتے ہیں مگر زیادہ تر  ’بُھنگانہ’ کہا جاتا ہے، ایک ایسی چیز جو مکھی جیسے بھنبھناتی رہتی ہے۔ وزیرستان میں اس وقت یہ بھنبھناہٹ لوگوں کی زندگیوں کا حصہ بن گئی ہے۔  وہ سوتے ہیں تو سر پر ڈرون کی آواز  آتی ہے، بازار میں ہوتے ہیں تو   ’بُھنگانہ’ صاف نظر آتا ہے۔ ایک وقت میں چھ چھ ڈرون فضا میں نظر آرہے ہوتے ہیں۔ یہ بذات خود ایک ذہنی پریشانی کا باعث ہے   لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ ڈرون کبھی بھی آگ اگل سکتے ہیں۔ اس کا کوئی مقام، وقت، وجہ یا خاص ہدف نہیں ہے۔

17 مارچ 2011، صبح  تقریباً دس بجے کے قریب  دتہ خیل کے علاقے میں ایک قبائلی جرگہ، جو کہ قبائلی زندگی کا سب سے اہم ادارہ ہے، جاری تھا۔ قریباً چالیس سے کچھ اوپر لوگ  وہاں دو گروہوں میں صلح کرانے بیٹھے تھے، جرگہ کا مقامی انتطامیہ کو دس دن پہلے سے پتہ تھا چناچہ قبائلی بڑے، ملک، خاصہ دار یعنی حکومتی ادارے کے نمائندے بھی موجود تھے جو اس مجمع کے  پرامن ہونے کے لیے ایک  سرکاری سند تھی ۔  کرومائٹ کی کان کا یہ معاملہ کچھ  گرما گرمی کی طرف تھا کہ  اچانک ایک تیز سرسراہٹ سی سنائی دی  اور اس کے بعد ایک زور دار دھماکہ ہوا۔  عینی شاہدین کے مطابق فضا میں موجود ڈرون نے ایک میزائل فائر کیا تھا۔ اس حملے میں کوئی  42 لوگ مارے گئے اور 14 زخمی۔  مرنے والے اکثر لوگوں کے بارے میں یہ مصدقہ  اطلاع ہے کہ ان کا کوئی تعلق کسی  دہشت گرد تنظیم سے نہیں تھا۔ یعنی وہ عام شہری تھے۔ ایک قبائلی  سردار   داؤد خان کا بیٹا ، نور خان،  سانحے کے وقت  پانچ گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ وہ واپس آیا تو اپنے  باپ کا  کفن میں لپٹا، جلا ہوا جسم   پایا۔ داؤد خان اس علاقے کا   ایک بڑا سردار تھا۔ اپنے علاقے والوں کے ساتھ ساتھ  گھر والوں کا  بھی سہارا تھا۔  کچھ یہی احوال  حاجی ملک بابت کا تھا جن کا اس ڈرون حملے میں انتقال ہوا۔ ان کا بیٹا خلیل خان  بتاتا ہے کہ مرنے والے کئی  قبائلی بڑوں میں سے پندرہ  تو صرف اسی کے  وزیری قبیلے سے تھے۔

اسی طرح 15 جون 2011 کو  امریکی ڈرون طیارے نے ایک گاڑی  ، جو کہ میرانشاہ اور سرکوٹ کے بیچ میں سفر کر رہی تھی، پر تقریباً چھ میزائل داغے اور پانچ لوگوں کو مار دیا۔  The bureau of investigative journalism کے مطابق پانچوں کے پانچوں لوگوں کو بعد میں  نام سے شناخت کیا گیا اور وہ پانچوں بھی  عام شہری تھے۔  کون لوگ تھے وہ؟ ایک  فارمیسی والا  عتیق الرحمان اور ایک اس کا طالبعلم ملازم ارشاد، ایک آٹو پارٹس کا بیوپاری عمر، ایک واپڈا کا ڈرائیور اکرم اور  اس کا  طالبعلم کزن شیرزادہ۔ یہ ہیں وہ ‘دہشت گرد ‘جن  کو مارنے کے لیے  چھ  Hellfire میزائل داغے گئے اور جب  عمر خان نے گاڑی سے باہر چھلانگ لگا دی تو آخری میزائل  نے اس کو بھی   قتل کر ڈالا۔

یہ صرف دو واقعات ہیں اور ان میں مرنے والے شہریوں کی تعداد پچاس تک پہنچ  جاتی ہے۔  ایک مہینے میں چھ حملے، ایک سال میں درجنوں  حملے اور  ہر حملے میں کئی ہلاکتیں۔کچھ عرصہ پہلے کی اطلاعات کے مطابق مرنے والے صرف بچوں ہی کی تعداد  178  ہے۔ اس کے باوجود جب  امریکی وزارت دفاع یہ کہتی ہے کہ مرنے والے شہریوں کی تعداد دس سے بھی کم ہے تو  پہلا سوال لازماً یہی ذہن میں آتا ہے کہ یہ کوئی اور گنتی گن رہے ہیں کیا؟ جواب اس کا ہے جی ہاں۔  امریکی وزارت دفاع کے مطابق کسی بھی حملے میں مارا جانے والا  ہر وہ مرد جو کہ جنگ لڑ سکتا ہے وہ جنجگو کی فہرست میں آئے گا ، الا یہ کہ اس کی موت کے بعد اس بات کا ٹھوس ثبوت مل جائے کہ  وہ ایک شہری تھا۔  امریکی حکومت کی طرف سے آج تک کوئی ایسی  کوشش نہیں کی گئی جو  ان حملوں میں مرنے والوں کے بارے میں  یہ  پتہ  لگانے کے بارے میں ہو کہ آیا وہ واقعی دہشت گرد تھے بھی کہ نہیں۔ اور ایسا کرنا سیاسی طور پر اوبامہ  کی صدارت کے لیے خودکشی کے مترادف ہو گا۔

باراک اوبامہ نے اس بات کو کبھی چھپانے کی کوشش نہیں کی کہ وہ ڈرون کو  زمینی  یا فضائی فوج پر زیادہ ترجیح  دیتا ہے۔  اس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ ڈرون اگر گر بھی گیا، اور گرتے ہی رہتے ہیں، توبھی  کسی فوجی کا قید میں چلا جانا یا مر جانا  اس سے کہیں  زیادہ عوامی ردعمل  کا موجب ہو گا۔ دوسری  بات یہ کہ گوانتانامو  جیل کا معاملہ بھی باراک اوبامہ کے لیے سانپ کے منہ میں چھچھوندر جیسا ہو گیا ہے۔ اس لیے مزید قیدی بنانے سے بہتر ہے کہ ان کو ٹھکانے لگا دیا جائے۔  لیکن  یہ سب تو ظاہر ہے  کہ  پوشیدہ وجوہات ہیں۔ اصل وجہ جو  اوبامہ، اس کی انتظامیہ  بالخصوص اس ڈرون جنگ کا  کرتا دھرتا  جان برینن  وغیرہ بتاتے ہیں وہ یہ ہے کہ  ’ہمارے ڈرون طیارے دہشت گرد اور عام شہری میں فرق کرنا جانتے ہیں’ یا ‘ہم ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ ڈرون حملوں میں   عام شہریوں کا نقصان نہ ہو’ یا وہ جملہ  جو سب سے زیادہ  کہا جاتا ہے کہ ‘ہمارے  میزائل Pinpoint Precision پر کام کرتے ہیں’۔

اس    نشانہ بازی کی سوئی کی نوک  کے برابر  درستگی کے بارے میں   IISI  نامی کمپنی نے  ہرجانے کے دعویٰ میں  عدالت  کو   بتایا کہ    ” Netezza  کمپنی نے ہمارا سوفٹوئیر  Geospatialغیر قانونی طریقے سے اور عجلت میں   reverse engineer کر کے سی آئی اے کو بیچا اور انہوں نے یہ جاننے کے باوجود کہ یہ  سوفٹوئیر کئی میٹر تک غلط  جگہ بتا تا ہے، اسے خرید لیا”۔  چھوٹی سی گاڑی پر چھ  Hellfire میزائل مارنے کی ضرورت ایسے ہی نہیں پڑتی۔ اس کے  علاوہ ٹریکنگ چِپس بھی استعمال کی جاتی ہیں جو  زمین پر موجود   امریکہ کے خریدے ہوئے لوگ  مشکوک لوگوں کے  ٹھکانوں پر ڈال دیتے ہیں اور وہ چِپ  ڈرون   کی رہنمائی کرتی ہے۔  اپریل 2009 میں 19 سالہ  حبیب الرحمان  کو   مبینہ  طور  پر TTPنے  گولی  مار دی۔  قتل ہونے سے پہلے اپنے ویڈیو پیغام میں حبیب نے کہا کہ اسے  یہ پتہ نہیں تھا کہ یہ CIAکا کام ہے، اسے تو چپس پھینکنے کے 122 ڈالر دئیے گئے تھے اور کہا گیا تھا کہ اگر تم کسی عرب گھر میں یہ چپ ڈالنے میں  کامیاب ہو گئے تو  بارہ ہزار  ڈالر  ملیں گے۔  اس نے کہا کہ میں نے اندھا دھند وہ چپس ادھر ادھر پھینکنا شروع کر دیں ، میں جانتا تھا کہ لوگ میری وجہ سے مر رہے ہیں مگر مجھے پیسے چاہیے تھے”۔ تو یہ ہے  Pinpoint precision کی روداد!

شروع شروع میں یہ ڈرون حملے  کسی ایک شخص معین پر ہوتے تھے۔  مثلاً  بش انتظامیہ کے دور میں نیک محمد   پر جو حملہ ہوا تھا وہ   Personality strike تھا۔  باراک اوبامہ نے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی یہ بات واضح کر دی تھی کہ     وہ  اور اس کی ٹیم ڈرون حملوں کو مزید آگے بڑھائیں گے۔ یہ پروگرام  ایسے آگے  بڑھا کہ اب سی آئی اے کے یہ ڈرون اڑانے والے اگر  کہیں بھی محسوس کریں کہ کوئی مشکوک سرگرمی ہو رہی ہے تو   اکثر و بیشتر  ان کو  حملہ کرنے کے لیے صدر سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔  جرگہ پر حملہ اسی کا شاخسانہ ہے،  اکرم خان کی گاڑی اسی لیے تباہ کی گئی، جنازوں ،شادیوں  اور دوسرے اجتماعات  پر  بھی حملے اسی Signature Strike کے زمرے میں آتے ہیں۔ یعنی  اگر کوئی صورتحال کسی پہلے سے متعین   Signature پر پورا اتر رہی ہے تو  ڈرون اڑانے والا حملہ کرنے کا مجاز ہے۔  وہ کیا قواعد ہیں جن کی بنیادپر یہ فیصلہ ہوتا ہے ، یہ ایک راز ہے۔   اب تو یہ بات مذاقاً کہی جاتی ہے کہ جہاں  CIA کو تین لوگ اچھل کود کرتے نظر آتے ہیں وہ ایک  Hellfire داغ دیتے ہیں۔

ڈرون طیارے بغیر پائلٹ کے نہیں اڑتے، بس ان کے پائلٹ  طیارہ میں نہیں بیٹھتے۔  وہ  ہزاروں میل دور نیواڈا میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ کل کے ایف سولہ اڑانے والے آج Predator اور Reaper اڑا رہے ہیں۔ ایک بڑے سے کنٹینر میں ایک ٹیم بیٹھی ہوتی ہے جس میں سے دو پائلٹ ہوتے ہیں۔  ان کے سامنے بالکل جہاز ہی کے انداز میں مختلف آلات لگے ہوتے ہیں۔ دو سکرینوں پر  جہاز کا بیرونی اور نیچے کا منظر دکھائی دیتا ہے۔  بالکل ایک ویڈیو گیم کا سا سماں ہوتا ہے۔  F-16 کی کمر توڑ پرواز  سے یہ  پرواز اگر ویسے ہی  ’گھر جیسا آرام ‘نہیں تھا تو ڈرون اڑانے والوں کے لیے اس قتل کی سنگینی کو کم سے کم رکھنے کے لیے   اس قتل کو Bug splat یعنی مکھی مارنا کہا جاتا ہے۔  یعنی  مرنے والا جو بھی ہو  کم از کم انسان کہلانے کے لائق نہیں۔  اوبامہ کی اس جنگ میں  حملوں  کی زیادتی کی وجہ سے پائلٹس کی اتنی کمی ہو گئی ہے کہ اب  امریکی فضائیہ اپنے کیڈٹس سے بھی یہ کام لے گی۔ اس پر  طرہ یہ کہ اب  ان کی حوصلہ افزائی کے لیے  ان کو بہادری کے تمغے  بھی دئیے جا نے کا  پروگرام رو بہ عمل ہے۔

اس سارے معاملے میں  پاکستان اور اس کے عوام کا کیا کردار ہے؟  ہم نے مضمون کے آغاز میں ملوک الطوائف  کا  ذکر کیا تھا۔   پاکستان  کی حکومت کا کردار  اس معاملے میں ایسا ہی منافقانہ ہے۔   آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کے مصداق اس علاقے سے ویسے بھی خبریں نہیں آتیں، اوپر سے ہمارے سابق وزیر اعظم صاحب وکی لیکس کے مطابق یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ ‘آپ اپنا کام جاری رکھیں گے، ہم پارلیمان میں آواز اٹھائیں گے اور پھر خاموش ہو جائیں گے”۔اپنے ملک کی عوام کو اس طرح درندوں کے حوالے کرتے کم ہی دیکھا گیا ہے۔ وزیرستان کی عوام کے آگے CIA کا کنواں اور پیچھے TTP کی کھائی ہے۔  وہ اپنے مخصوص محل وقوع  کی وجہ سے اس وقت  زمین کی پشت پر بد ترین مصیبت  میں ہیں۔ اور اس صورتحال میں انہیں دھکیلنے والے کوئی اور نہیں ان کے اپنے ہموطن ہیں۔

ہمارے  نام نہاد دانشور اکثر و بیشتر یہ کہتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ ہم امریکہ کا ڈرون مار کے خود کہاں جائیں گے؟ اس کے جواب میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ان کا اپنا بچہ مرتا کسی ایسے حملے میں تو  پھر پوچھتے  ان  سے۔  ہر وقت ڈرون کی بھنبھناہٹ، اس کی ہمہ وقت موجودگی، اس کا کسی بھی مجمع پر حملہ کر ڈالنا ، اس حملہ کے نتیجے میں مدد کو آنے والوں کو بھی نشانہ بنانا،اپنے پیاروں ، اپنے  بچوں کی مسخ شدہ جلی ہوئی لاشیں ، اور کبھی صرف ان کے جسم کے ٹکڑے  ہی دفنا پانا۔   یہ سب وہ باتیں ہیں جو  انور بیگ اور خورشید ندیم جیسے  یہ ڈرائنگ روم کے دانشوروں کے لئے محسوس کرنا ان کے بس سے باہر ہے۔

کیا ہم ڈرون طیارے گرا سکتے ہیں؟    تو اس کے جواب میں پہلی بات تو  یہ  کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ یہ ڈرون طیارے پاکستان کی اپنی  سرزمین سے اڑتے ہیں تو  ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی تو کوئی ہے ہی نہیں، رضا مندی  ہی رضامندی ہے۔  بلکہ ہمارے مقتدر حلقے تو ڈرون ٹیکنالوجی  مانگتے بھی رہے ہیں کہ جی ہمیں بھی تو دکھائیں۔     ڈرون مارگرانا کوئی مشکل کام نہیں ، لیکن مسئلہ یہ  ہے ہی نہیں کہ ہم مار سکتے ہیں کہ نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ ہم مارنا چاہتے ہیں کہ نہیں۔   ہمارے نئے نویلے وزیر اعظم صاحب نے فرمایا ہے  کہ ‘ڈرون پر تحفظات ہیں’۔ ان کے اس سے بھی نئے نویلے  مشیر  خارجہ  نے فرمایا کہ  ’تمام صلاحیتیں بروئے کار لائی جا سکتی ہیں’۔  نجانے یہ باتیں کہہ کر وہ کس کی تسلی کرنا چاہتے ہیں ورنہ  صاف نظر آرہا ہے کہ  یہ  بھی  ’اِب کے مار’ والے لوگ ہیں۔  AfPak ریجن کے لیے امریکہ کے نئے  نمائندہ   جیمز ڈابنز سے جب ہمارے ملک کے وزیر اعظم نے کہا کہ ڈرون حملے بند کر دیجیے تو اس نے ایک  یک لفظی جواب  جو دیاوہ  تھا “نہیں” اور ہماراردعمل  تھا ،’جی اچھا’۔ معذرت کے ساتھ ، یہی ڈرون اگر کوئی بیکری والا اڑا رہا ہوتا  اور اس نے  یہ ‘نہیں ‘ بولا ہوتا  تو  اس کے ساتھ یہ کیا سلوک کرتے وہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔

دتہ خیل میں مرنے والے داؤد خان کے بیٹے نور خان  نے پاکستانی وکیل شہزاد اکبر سے را بطہ کیا جو کہ  درجنوں دوسرے خاندانوں کے  لیے پاکستانی عدالتوں میں ان ڈروں حملوں میں مرنے اور زخمی ہونے والوں کے لیے عدل  مانگ رہے تھے۔   چند ماہ قبل پشاور ہائیکورٹ نے کیس کے فیصلے میں ڈرون حملوں کو غیر قانونی قرار دے دیا ۔  پاکستان کی پارلیمنٹ پہلے ہی ان حملوں کو نا جائز قرار دے چکی ہے۔  عمران خان نے پہلا مطالبہ  جو اس حکومت سے کیا ہے وہ یہی ہے کہ ڈرون حملوں کو رکوا دو ہم تمہارا ساتھ دیں گے۔ پاکستان کی حکومت کے پاس اب   ہر طرح کا اختیار ہے کہ وہ ان حملوں کو  ایک دم رکوا دے  لیکن ان کا پھر بھی ایسا نہ کر نا  سیدھا سیدھا اشارہ کرتا ہے  کہ یا تو ملی بھگت  ہے یا کردار کی کمی، یا  کردار کی کمی کی وجہ سے ملی بھگت!

جب اندلس  کے نا عاقبت اندیش حکمرانوں کے لیے سانس لینا دوبھر ہو گیا  اور  الفانسو ان کی  جڑوں میں بیٹھ گیا تو پھر انہوں نے مدد کے لیے   سمندر پار سے  یوسف بن تاشفین کو بلایا جس نے ایک ہی حملے میں الفانسو کا ایسا صفایا کیا کہ اگلے چار سو سال اندلس میں پھر اسلامی پرچم لہرانے لگا۔  ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کے حکمرانوں کے ہاتھ سے معاملات نکل چکے ہیں۔ یہ اب  اپنی مرضی سے  ایک روٹی  بھی نہیں خرید سکتے۔  تو ایسے وقت میں  کسی یوسف بن تاشفین کو نہ سہی، اپنی عوام کو ہی آواز دے لیں۔  ہمیں اصل معاملات سے آگاہ کریں۔  اس بات سے آگاہ کریں کہ مشرف نے جب ہمیں اس نا پاک اور نا مراد جنگ میں دھکیلا تھا تو کیا شرائط طے کی تھیں؟ اس جنگ میں پاکستان اور اس کے وسائل کی شمولیت کے parameters کیا تھے؟  پھر   وہ کیا وجہ ہے کہ  ہمارے شہروں میں اسلامی نام والی تنظیموں کے دھماکے کی ایک ایک لمحے کی خبر دکھائی جاتی ہے لیکن امریکہ کے ان ڈرون حملوں کی کوئی ایک ویڈیو بھی نہیں آتی ۔ کیوں ہم اپنے شہروں میں مرنے والے  شہریوں کی تعداد، علاقے ، حتیٰ کہ مسالک تک سے آگاہ ہیں لیکن  دتہ خیل، سرکوٹ ، میرانشاہ اور ڈامہ ڈولہ کے ان Hellfire میزائل میں مرنے والے ‘دہشت گردوں’ کی اصلیت سے نا واقف ہیں۔  اگر آپ  عوام کو اعتماد میں نہیں لیں گے تو  یہ معاملہ زیادہ دن چلنے والا نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ  وہ وقت دور نہیں جب یہ Predator اور Reaper کراچی، ملتان، رحیم یار خان،  کوئٹہ ، لاہور، ایبٹ آباد  اور اسلام آباد  کی  فضاؤں میں بھی ایسے ہی نظر آئیں گے۔  لیکن ایسے وقت میں نجانے کیوں مجھے یقین ہے  کہ ہمارے یہ پٹھان بھائی ہمیں ایسے نہیں چھوڑیں گے جیسے ہم نے انہیں چھوڑ رکھا ہے۔  اللہ ہمارے ان بھائیوں اور بہنوں کی حفاظت کرے۔ آمین!

اور وہ رخصت ہو گئی

Posted in Personal by baigsaab on April 27, 2013

جویریہ چلی گئی! ساڑھے چار سال تک جس فون کال سے میں ڈرتا رہا، جب وہ آئی تو میں اس سے اسی طرح بے خبر تھا جیسے انسان  اپنی موت سے بے خبر ہوتا ہے۔ جویریہ میری بیٹی تھی۔ ساڑھے چار سال کی میری ننھی سی پیاری سی گڑیا۔ جسے جن ہاتھوں سے اٹھا کر میں گھر میں لایا تھا، انہی ہاتھوں سے اس کو قبر میں اتارنا پڑا۔ لیکن یہ مضمون اس لیے نہیں لکھ رہا کہ مجھے نعوذ باللہ  اپنی تقدیر پر کوئی گلہ ہے، یا ہمدردیاں سمیٹنا مقصود ہے۔ الحمدللہ  اللہ نے  لوگوں کے دل ہمارے لیے اتنے نرم کردئیے ہیں کہ ہم سے تو یہی محبت نہیں سنبھالی جا رہی۔  یہ مضمون صرف ان ساڑھے چار سالوں کی ایک چھوٹی سی کہانی ہے، جن میں میں نے اور جویریہ کی ماں نے کئی زندگیاں گذار لیں۔ جو بوجھ کئی  مہینے سے میرے دل پر ہے اس کو کاغذ  پر منتقل کرلینے سے شاید میرے دل کو کچھ قرار آ جائے اور شاید میں ان لوگوں کا شکریہ ادا کر سکوں جن سے تشکر کا اظہار کرنا مجھ پر قرض ہے۔

 جویریہ کو پیدائشی طور پر سانس کی تکلیف تھی ۔ پیدائش کے وقت پھیپھڑوں میں پانی بھر جانے کی وجہ سے اس کو پیدائش کے فوراً بعد ہی انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رکھنا پڑا۔ وہیں  ہم پر یہ عقدہ کھلا کہ گائناکالوجسٹ کی غفلت کی وجہ سے یہ کیس  اتنا خراب ہوا  ورنہ اس کو بہتر طریقے سے ہینڈل کیا جا سکتا تھا۔ بہرحال، اس دوران ہمارا تعارف ڈاکٹر فریدہ سے ہوا ،جو ہر لحاظ سے بچوں کی ایک بہت اچھی ڈاکٹر ہیں۔  جویریہ کے نقوش پیدائش کے وقت عام پاکستانی بچوں سے مختلف تھے، کچھ چینی سے نقوش تھے۔ دبی ہوئی ناک،  انتہائی گورا رنگ، تھوڑی باہر کو نکلی ہوئی آنکھیں ۔  ڈاکٹر فریدہ  نے ہمیں یقین دلایا کہ جویریہ ایک ‘نارمل’ بچی ہے اور یہ کہ یہ تھوڑا سا عرصہ اس کو مشکل میں گذارنا پڑے گا۔ ایک پورا ہفتہ ہم   اولاد کی نعمت مل جانے کے باوجود ایسے گذارتے رہے جیسے کسی  کا  حج کا ٹکٹ اور ویزہ سب لگا ہو اور جہاز چلنے بند ہو جائیں۔ جو والدین اس طرح کی کیفیت سے گزر چکے ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔

ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد جب اس کو گھر لے کر آئے تو مستقل طور پر اس کی سانس لینے کی آواز سے ہم پریشان ہوتے تھے۔ اس کیفیت کو ‘اسٹرائیڈر’ کہتے ہیں اور یہ عمر کے ساتھ ساتھ بہتر ہو جاتی ہے۔  کہیں جاتے آتے تو لوگ مڑ مڑ کر دیکھتے تھے کہ  یہ لوگ اس ‘بیمار’ بچی کے ساتھ کہاں آگئے۔  اس کیفیت میں ہم مختلف ڈاکٹروں کے چکر لگاتے رہے، کوئی ڈاکٹر جو ہمارے سوالوں کا جواب دے دے۔ کافی ڈاکٹروں کے چکر لگانے کے بعد، جن میں کراچی کے نامور سرجن اور بچوں کے مشہور ڈاکٹر بھی شامل ہیں، ہماری ملاقات ریحان بھائی سے ہوئی۔  انہوں نے جویریہ کا اچھی طرح معائنہ کرنے کے بعد ہمیں بتایا کہ  یہ کسی صورت ڈاؤنز کا کیس نہیں  ہے۔ (ڈاؤنز کے بارے میں آگے بات  آ رہی ہے)۔  مزید تشفی کے لیے انہوں نے ہمیں اس کا کروموسوم کا ٹیسٹ کرانے کہا  جو کہ بعد میں  نارمل آیا۔ ڈاکٹر فریدہ اور ڈاکٹر ریحان، وہ دو لوگ ہیں جنہوں نے ہماری ہر اس طرح سے مدد کی جس طرح کوئی ڈاکٹر کر سکتا ہے، ریحان بھائی نے تو اس سے بھی زیادہ۔  دونوں ہماری باتوں کو توجہ سے سنتے تھے۔ خاصا وقت دیتے تھے۔ اگر ہم کوئی سوال کرتے تھے تو  اس کا جواب اچھی طرح دیتے تھے ، ٹالتے نہیں تھے۔ جویریہ کی پوری زندگی میں ہم ان دو افراد کے ساتھ کافی وابستہ رہے اور ان دونوں  کے اس ہمدردانہ رویہ کی وجہ سے ہمارا دل ڈاکٹروں  کی طرف سے کافی صاف رہا۔ دو سال کی عمر تک جویریہ کئی دفعہ ہسپتال میں رہی، ایک دفعہ آئی سی یو بھی ہو کر آئی۔  تاہم اس دوران ہم لوگ کافی حد تک اس کے ساتھ زندگی گذارنے کے عادی ہو گئے تھے۔  ہمارے گھر میں کئی  طرح کی مشینیں آگئیں۔ ایک سکشن مشین بھی لی گئی جس کا استعمال یہ تھا کہ بچی کے حلق میں ایک نالی ڈال کر بلغم کو کھینچ کر باہر نکالنا ہوتا تھا۔  یہ ایک صبر آزما کام تھا اور مجھ سا ڈھیٹ بھی یہ کام کرنے سے  گھبراتا تھا، لیکن میری اہلیہ نے اس موقع پر بھی مجھ سے بڑھ کر ہمت دکھائی اور کئی دن تک وہ یہ کام دن میں متعدد دفعہ کرتی رہیں۔

زندگی پھر کبھی ویسی نہ رہی۔ ہمارے معمولات کافی تبدیل ہو چکے تھے۔ آنا جانا ، ملنا ملانا کافی حد تک کم ہو گیا تھا۔ کسی تقریب میں جانے سے قبل پہلے ہمیں دیکھنا پڑتا تھا کہ تقریب کتنی دیر کی ہے، کس کی ہے، کیا وہاں سردی ہوگی، کیا ہوا ہو گی، کیا ہم تقریب درمیان میں چھوڑ کر آسکیں گے۔  غرض ہماری ، خاص طور پر میری اہلیہ کی، تفریح اور آرام مکمل طور پر جویریہ کی صحت اور طبعیت کے تابع ہو گئے۔  ہم کہیں جاتے تھے تو باہر کے گرد و غبار اور شور دھوئیں کی وجہ سے   اے سی چلاتے تھے، لیکن چونکہ جویریہ کو خنکی سے بھی مسئلہ ہوتا تھا ، چنانچہ میری بیگم کو اسے گود میں لے کر پیچھے بیٹھنا پڑتا تھا۔   ناواقف سمجھتے کہ شاید ہماری ناراضگی اتنی بڑھ گئی ہے کہ ہم ساتھ نہیں بیٹھتے ، اور واقف سمجھتے کہ میں اپنی قدامت پسندی کی وجہ سے ایسا کرتا ہوں۔  ہم نے چاول کھانا تقریباً بند کردئیے اور کھاتے بھی تھے تو اس سے چھپ کر کیونکہ چاول اس کے لیے ناموزوں تھے  اور یہ  چاولوں کی عاشق۔

پھر جویریہ کی زندگی کا سنہرا دور آیا، اور یہ وہ دور ہے جس کی یادیں میرے دل میں  نقش  ہیں۔ اس میں وہ ہنستی ہے، ہنساتی ہے، پیار کرتی ہے، ناز اٹھواتی ہے، نخرے دکھاتی ہے۔ یہ وہ دور ہے جب میں نے اس کے لیے کراچی کے مہنگے سے مہنگے کپڑے لا کر دیے۔  جب ہم لوگ باہر کھانا کھانے جاتے تھے اور جویریہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر دونوں اگلی سیٹوں کے بیچ میں  کھڑی ہوجاتی اور پورے راستے سونے کا نام  نہ لیتی۔  جب اس کی شرارتوں سے تنگ آکر میں  کہہ دیتا کہ میں اب کھانا کھانے باہر نہیں جاؤں گا۔  اور کچھ دن بعد ہم  پھر نکل کھڑے ہوتے۔  اس وقت میں بھی ہم کو اس کی نگہداشت کرنی تو پڑتی تھی لیکن نسبتاً کم۔ اس کی سانس کی آواز اب بھی آتی تھی لیکن صرف کسی نئے بندہ کو کہ ہم تو عادی ہو گئے تھے۔  غرض اس  نے کافی حد تک اپنی پیدائشی کمزوری پر قابو پا لیا تھا۔  اسی دوران ہم نے اس کی اسکولنگ، بلکہ صحیح معنوں میں ، ہوم اسکولنگ شروع کرا دی جہاں اس  کا خیال اور بھی زیادہ رکھا جانے لگا۔  ساتھ ساتھ اس کو  نیبولائز کرنا پڑتا تھا لیکن کبھی کبھار۔

جب وہ تین سال کی ہوئی تو اس کی ماں ، جو گزشتہ ایک سال سے مجھے مستقل  کہے جا رہی تھی، نے مجھے مجبور کیا کہ میں اس کا چیک اپ کرواؤں کہ وہ بولتی کیوں نہیں۔  میں ٹالتا رہا کہ بچے کبھی کبھار پانچ سال تک بھی نہیں بولتے لیکن اس کا اصرار بڑھتا گیا۔ ہمیں اس کا سماعت کا ٹیسٹ کرانے کا کہا گیا۔  اور جب رزلٹ آیا تو میرے پیروں کے نیچے کی زمین  نکل گئی۔ رپورٹ میں درج تھا کہ اس کی سماعت ایک کان سے ہوتی ہی نہیں اور دوسرے کان سے کم ہے۔  ایک اور جگہ یہی ٹیسٹ کرایا تو وہ پہلے سے بھی عجیب آیا کہ اس میں دونوں کانوں میں محض بیس فیصد سماعت ثابت ہوئی تھی۔  ہمارے لیے یہ حیرت کی بات یوں تھی کہ ہم نے کبھی اس طرح کا معاملہ محسوس نہیں کیا تھا۔ وہ میرے ساتھ ساری نظموں پر  ایکشن کرتی تھی  اور اس سے پہلے کبھی مجھے یہ شک نہیں ہوا تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے۔  ہم نے، بلکہ اگر صحیح کہا جائے تو میں نے، اس وقت ایک فیصلہ یہ کیا کہ فی الحال اس کو سماعت کا آلہ نہیں لگائیں گے،  کیونکہ اس ٹیسٹ کا ایک مسئلہ یہ تھا کہ اس میں نزلہ کی کیفیت بالکل نہیں ہونی چاہیے اور جویریہ کا تو  مسئلہ ہی دائمی نزلہ کا تھا۔ تو میں نے اپنے مشاہدے کو  بنیاد بنا کر اس کو آلہ نہیں لگایا۔ ہم نے جویریہ کی زبان کی بندش کو کھولنے کے  لیے اس کی اسپیچ تھراپی کرانی شروع کی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں میں نے اپنی زندگی کے چند با ہمت ترین لوگوں کو دیکھا۔

انسانی جسم کے ہر  خلیہ یعنی سیل میں 46 کروموسوم ہوتے ہیں۔  یہ  کروموسوم جوڑوں کی شکل میں ہوتے ہیں  اور ان کروموسوم  میں انسان کے جسم کے متعلق انتہائی اہم اور بنیادی معلومات ہوتی ہیں۔  ان 23 جوڑوں میں سے اکیسواں کروموسوم جوڑا  اگر ذرا سا بھی بگڑ جائے یعنی   اس میں کروموسوم دو سے زیادہ ہو جائیں  تو اس سے جو کیفیت پیدا ہوتی ہے اس کو ‘ڈاؤنز  سنڈروم’ (Down’s Syndrome) کہتے ہیں۔  ڈاؤنز بچے بہت پیارے ہوتے ہیں   اور ان میں کافی بچے بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو کافی سنبھال لیتے ہیں لیکن ان کے لیے ایک آزادانہ زندگی گذارنا ایک چیلنج ہوتا ہے۔

ہم  جویریہ کو  پہلے شہید ملت روڈپر واقع  ایک میموریل سینٹرلے جاتے تھے ، پھر اس کو گلشن میں واقع ایک خصوصی تعلیم کے اسکول میں لےجانے لگے۔   دونوں جگہ کافی لوگ اپنے بچوں کو  اسپیچ تھراپی کے لیے لے کر آتے تھے۔ اور ان میں سے  کچھ  بچے ڈاؤنز ہوتے تھے۔  ایک پیاری سی بچی   وہاں آتی تھی جو کہ ڈاؤنز تھی۔ بہت صاف ستھری، بالکل گڑیا جیسی، اس کی ماں اس کو آہستہ آہستہ سہلاتی رہتی۔ کئی دفعہ وہ ماں سے ناراض ہو جاتی لیکن ماں اس کو کچھ کہتی نہیں تھی۔  صرف ایک نہیں، کئی لوگ تھے، ہمت اور سطوت کے  پہاڑ۔ جو ایسی زندگیاں گذار رہے ہیں جن کا  اکثر لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ آپ کو اگر لگتا ہے کہ آپ کے بیٹے کا رنگ کم ہے تو جا کر کسی ایسے  گھر میں تھوڑی دیر بیٹھ آئیے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ بے اولاد ہونے کی وجہ سے آپ کے ساتھ کوئی ظلم ہو رہا ہے تو پہلے اولاد کے دکھ کو سمجھنے کی کوشش کر کے دیکھ لیں۔  اگر آپ کا کوئی رشتہ دار  یا دوست ٹائم پر نہیں آرہا اور اس کے گھر میں کوئی بچہ ہے جو عام بچوں سے مختلف ہے  تو ان کو شک کا فائدہ ضرور دے دیں کہ  کئی دفعہ محض باتھ  روم لے جانا  اور کپڑے تبدیل کرانا ہی بہت بڑا چیلنج ہو جاتا ہے۔  ایسے والدین کو دیکھ کر ، ان سے بات کر کے، ان کی ہمت دیکھ کر، اپنی چھوٹی سی تکلیف کوئی تکلیف ہی نہیں لگتی تھی۔  ان لوگوں کے سامنے ہم اپنے آپ کو ناشکرے بونے تصور کرتے تھے۔ ان سب کے علاوہ  ایک اور بھی  ہستی تھی جس کو دیکھ کر ہماری ہمت اور بڑھتی تھی اور وہ تھی خود ہماری بیٹی۔

 مجھے یاد نہیں پڑتا کہ اپنی پوری زندگی میں جویریہ نے کبھی کھل کر سانس لی ہو۔  کوئی دن ایسا مجھے تو یاد نہیں ، جب میں نے اس  کی سانس کی آواز نہ سنی ہو۔  اس کو کھانسی اکثر رہتی تھی۔ لیکن اس کے باوجود اس کو ہنسنا آتا تھا۔ خوش رہنا آتا تھا۔ خوش کرنا آتا تھا۔ ہر ملنے والے سے ہنس کر ملنا اور ملنے والے کو مسکرانے پر مجبور کر دینا یہ اس کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں  لگتا تھا۔  وہ مجھے یا اپنی ماں کو اداس نہیں دیکھ سکتی تھی۔ وہ  ہمیں فارغ بھی نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اس کو پڑھنے کا بہت شوق تھا اور  ہمارے گھر کے در و دیوار اس کی نوٹ بک بن چکے تھے ۔ کہیں ڈرائنگ کی مشق تو کہیں گنتی کی۔  چھوٹے بھائی کے ساتھ اس  کا رویہ ویسا ہی تھا جیسا سب بڑی بہنوں کا ہوتا ہے، دشمنی بھری دوستی!

جویریہ کی وجہ سے ہم نے کچھ انتہائی سطحی لوگوں کو بھی دیکھا۔ وہ لوگ جو ڈاکٹری کے معزز پیشے کو معزز نہیں سمجھتے، صرف پیشہ سمجھتے ہیں۔ وہ بھی جو ان چیزوں کے کاروبار میں ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے سامنے والے کے  جذبات کی یا تو کوئی اہمیت نہیں ہوتی، یا ان کے پاس اپنی بات کو اچھے طریقے سے کرنے کا وقت   یا صلاحیت یا دونوں نہیں ہوتے۔ اکثر ڈاکٹر  ذرا سے مختلف بچوں کو مختلف کیٹیگریز میں رکھ کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔  وہ بچے کی پرابلم یا بیماری کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرنے میں اپنا وقت ضائع کرنا نہیں چاہتے  بلکہ مریض کو اپنے ذہن میں موجود  مختلف ڈبوں میں سے ایک میں ڈال دیتے ہیں۔ ان کے پیسے کھرے ہو جاتے ہیں تو وہ آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی توجہ موجودہ کیس پر نہیں بلکہ آنے والے کیس پر ہے۔   ایسے لوگ میرے نزدیک اپنے پیشے کے ساتھ انصاف نہیں کرتے۔ ڈاکٹروں کو فیس لینے سے کسی نے نہیں روکا لیکن فیس کو زندگی کا مقصد بنا لینا ایک تکلیف دہ امر ہے۔ اور رہی بات صحت سے متعلق  دوسرے کاروبار، تو وہ بہرحال کاروبار ہی ہیں۔  آلہ سماعت  بیچنے والے کراچی کے ایک بڑے ادارے کے مالک صاحب نے مجھے  کہا کہ حضرت آپ جلد سے جلد آلہ سماعت لگوا لیں ورنہ آج تو آپ کی بیٹی بہری ہے کل کو خدانخواستہ گونگی نہ ہو جائے۔  ا س جملے کی کاٹ کا اندازہ بھلا اس شخص کو کیسے ہوا ہوگا؟ گھر آ کر بھی بہت دیر اس جملے کی گونج میرے دل و دماغ میں رہی۔   ابھی بھی میں یہی سوچتا ہوں کہ کوئی شخص اس قدر آسانی سے اتنا سفاک جملہ کیسے بول سکتا ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ صحت اس ملک میں آسانی سے حاصل نہیں ہوتی، کیونکہ ایسے لوگوں سے یہ  شعبہ اٹا پڑا ہے۔ پھر بھی کچھ لوگ ہیں جو اس شعبے کی عزت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ جیسے ہمارے دونوں  محسن ڈاکٹرز یا میرے کزن  ڈاکٹر  شیخ جنہوں نے جویریہ کے آخری ایام میں ہماری  ہر ممکن مدد اور رہنمائی کی ۔

جویریہ  کی زندگی کے آخری کچھ مہینوں میں مجھے رہ رہ کر اس کی حفاظت کا خیال آتا تھا۔   لگتا تھا کوئی اس کو مجھ سے چھین لے گا۔ ہر سگنل پر، ہر  پارک میں جہاں ہم جاتے تھے، وہاں میں بالکل مزہ نہیں کرسکتا تھا۔ ایک عجیب سی کیفیت تھی جسے میں اپنی  اہلیہ تک سے بیان نہیں کر سکتا تھا۔ جانے کیوں مجھے لگتا تھا کہ یہ اب زیادہ عرصے نہیں رہے گی۔  میری اہلیہ اس بات پر پریشان ہوتی تھی کہ اس کی شادی کیسے ہوگی اور مجھے ایک لمحہ کے لیے بھی اس کی فکر نہیں ہوتی تھی۔ مجھے فکر تھی تو یہ کہ یہ بڑی ہوجائے۔  بظاہر یہ ایک نہ سمجھ میں آنے والی بات تھی کہ ایک ایسی بچی جو اتنے مشکل دور کو نسبتا ً با آسانی گذار آئی ہو  اس کو آگے ایسا کیا خطرہ ہو سکتا ہے  … لیکن ایک چیز مجھے کھٹک رہی تھی۔ کچھ عرصے سے اس کی طبیعت اچانک بہت بگڑجاتی۔ گلا بالکل بند ہو جاتا اور اگر فوراً اسٹیرائیڈ کا انجیکشن یا  گولی نہ ملتی تو حالت بہت نازک ہو جاتی۔  بس یہی وہ بات تھی جو مجھے  بے چین کئے رکھتی تھی۔ میں جویریہ کی پیدائش کے دن سے اس کی  وفات کے دن  تک  اپنی بیوی کی ہر کال ایسے اٹھا تا تھا کہ اس کے ساتھ یا اللہ خیر کی دعا ہوتی تھی۔

اس اتوار کو میں دفتر میں تھا۔ اور میرے موبائل پر  جویریہ کے ماموں کا فون آرہا تھا۔  میں نے سوچا نماز پڑھ کر کال کر لوں گا ، اس لیے کال نہیں اٹھائی ۔ لیکن جب دوبارہ کال آئی تو میں نے کال اٹھائی  ۔ دوسری طرف سے  ایک کہرام پڑا تھا اور اس میں  اس کے ماموں کی چیختی ہوئی گھبرائی ہوئی آواز کہ “فراز بھائی جلدی آئیں جویریہ کی طبیعت بہت خراب ہے”۔  میں فی الفور اپنی گاڑی کی جانب دوڑا ۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی میں مجھ پر سکون کی ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ مجھے یقین ہو گیا کہ کچھ ہونے والا ہے۔ میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ” اے اللہ یہ آپ ہی کی امانت ہے، آپ ہی اس کا خیال کریں ، میں تو کچھ بھی نہیں کر سکتا”۔ ایسی گفتگو میں  پہلے کئی بار کر چکا تھا … لیکن مجھے کبھی بھی ایسی خاموشی محسوس نہیں ہوتی تھی ، جیسی اس دن ہوئی۔

موبائل پر مستقل رابطہ میں رہتے ہوئے پتہ چلا کہ  جویریہ کو وہ لوگ پہلے ایک ہسپتال لے گئے لیکن ان کے پاس نہ قابل ڈاکٹر تھے نہ آلات۔ تو پھر وہ دوسرے ہسپتال لے کر پہنچے اور  وہاں میں پہنچا۔  اس وقت تک وہ بے ہوش ہو چکی تھی۔  پتہ نہیں اس کو میرے چیخنے کی آوازیں آئی ہونگی کہ نہیں۔  بہرحال اس ہسپتال سے بھی یہی جواب ملا کہ اس کو کسی ‘بڑے’ ہسپتال لے کر جائیں۔  وہاں سے ایمبولینس میں اپنی بیٹی کو ڈال کر میں اور اس کی نانی  شہر کے دوسرے کونے پہنچے تو ڈاکٹروں نے کچھ ہی کوشش کے بعد یہ کہہ دیا کہ اب کچھ ہو نہیں سکتا۔  اس سارے وقت میں میں اپنے آپ کو کس طرح سنبھالے ہوئے تھا ، میں نہیں جانتا۔  بالآخر ڈاکٹروں نے ‘انا للہ و انا الیہ راجعون’ کہہ کر میری بیٹی کی رخصتی کا اعلان کر دیا۔

رات چونکہ کافی ہوگئی تھی ، اس لیے  ہم نے اس کی تدفین دوسرے دن کرنے کا ارادہ کیا۔ رات کو سونا اگرچہ ایک مصیبت  تھا لیکن ضروری بھی تھا۔ صبح جب ہم اٹھے تو میں اور میری بیوی دونوں نے ایک دوسرے سے یہ کہا کہ یوں لگ رہا ہے کہ جیسے کوئی پراجیکٹ ختم ہو گیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی  بہت بڑی ذمہ داری تھی جس سے ہم لوگ عہدہ برآ ہو گئے ہیں۔ جب اس کو تدفین کے لیے لے جا رہے تھے اور میں نے اس کی پیشانی پر بوسہ لیا تو  لگا کہ اس کا سرد وجود گویا وقت میں قید ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کی تدفین کے وقت بھی میں کافی مطمئن تھا۔  کیوں  ؟ کیسے ؟ یہ میں نہیں جانتا ۔  اور جب میں دعا کروا رہا تھا تو میری آنکھوں کے سامنے وہ سارے بچے گھوم رہے تھے جن کو امریکی و اسرائیلی درندوں کی گولیاں اور میزائل روزانہ موت کے گھاٹ اتار رہے تھے۔

یہ محض میرے رب کا کرم ہے کہ میں اور میری بیوی دونوں اپنے حواسوں میں ہیں۔ اولاد کی موت پر میں نے لوگوں کو نیم پاگل بلکہ مکمل پاگل ہوتے دیکھا ہے۔  الحمد للہ ! اللہ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں ایمان کی دولت عطا فرمائی ۔ سو ہم جانتے ہیں کہ تقدیر لکھ دی گئی ہے، اس سے ہٹ کرایک  پتہ بھی نہیں گرے گا۔ اب اس بات کا رونا کیسا کہ یہ کس کی غلطی تھی،  کیا میری  اہلیہ  کی جس نے اپنی پوری زندگی اپنی بیٹی کے لیے وقف کردی اور جو اس وقت وہاں موجود تھی۔ کیا اس کے ماموں کی جس بیچارے کے سامنے شاید یہ پہلا ایسا کیس ہوا تھا۔ یا اس نظام کی جس میں شہر میں ہسپتال تو کئی ہیں لیکن قابل عملہ اور آلات ناپید۔

ہمیں سمجھ آیا کہ اولاد ہونا بذات خود کوئی فخر کی بات نہیں بلکہ یہ تو ایک مسلسل ذمہ داری ہے۔ اگر اولاد کی تربیت صحیح نہ کی اور وہ اولاد خدانخواستہ  نافرمانی کے راستے پر چل پڑی تو وہ الٹا وبال بن جائے گی۔  تو اس حساب سے دیکھا جائے تو ہم کافی خوش نصیب رہے۔  ان مع العسر یسراً  بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔  دیکھیں ناں کتنی آسانی ہو گئی ، کہ اب نہ رشتہ تلاش کرناپڑے گا ، نہ پڑھانے کی فکر، نہ کھلانے پلانے کی فکر، نہ ڈاکٹروں کے چکر ، نہ لوگوں کو جواب دینے کی فکر کہ اس کو ہوا کیا ہے، نہ کسی کو یہ باور کروانے کی مشق کہ یہ سب سنتی ہے بس بولتی نہیں۔ بس یوں سمجھ لیں کہ ہم نے اپنے بیٹی کو اچھی طرح پڑھایا لکھایا، بہت اچھا سا لڑکا اس کے لیے دیکھا اور اس کو رخصت کر دیا، شادی کے بعد وہ ایسی جگہ چلی گئی جہاں نہ فون ہے نہ انٹرنیٹ، اور اس کو واپس آنے میں کافی وقت لگے گا۔ اس با ت کا یقین ہے کہ اب وہ اس  ہستی کے پاس ہے جو مجھ سے اور اس کی ماں سے  اسے کہیں زیادہ پیار کرتا ہے، بلکہ پیار تو کرتا ہی ہمارا رب ہے، ماں باپ تو محض ایک ذریعہ ہوتے ہیں۔ اللہ نے اپنے نبی ؐ کی زبان مبارک سے جو ہمیں بشارتیں دی ہیں وہ  سنتے ہیں اور دل کو بہلاتے ہیں کہ بس چند دن اور۔

بے شک ان مع العسر یسراً  کہ ، محض تین ہفتے بعد ہی، اللہ نے ہمیں  ایک اور اولاد دے دی۔  ایک اور بیٹا دیا۔ یہ بھی اس کا کرم ہے۔ ہم شاید جویریہ کی یاد کو بھلا جاتے اگر بیٹی ہی مل جاتی۔ یہ سب اس کا فضل، اس کا کرم، اس کی رحمت، اس کی مرضی، اس کی  مقرر کردہ تقدیر ہے۔ ہمارے پاس اگر کوئی  اختیار ہے تو محض یہ کہ ان گزرتے ہوئے حالات میں ہمارا ردعمل اور نیت کیا ہوتے ہیں۔ ہونا وہی ہے جو لکھا ہوا ہے، لیکن کیا ہم اس پر راضی بھی ہیں؟  مجھے نہیں پتہ کہ اس میں اللہ کی کیا مصلحت تھی کہ اولاد کو اگر واپس ہی لینا تھا تو  عطا کیوں کی تھی یا اتنا بڑا کیوں کیا،   بس یہ وہ مقام ہے جہاں تسلیم و رضا ایک نتیجہ پیدا کرتی ہے اور  ماتم اور نا شکری کے کلمات ایک دوسرا نتیجہ۔ایسا نہیں کہ ہم دونوں آنسو نہیں بہاتے۔ آنسو تو  نبی اکرم ؐ نے بھی اپنے صاحبزادے کی وفات پر بہائے تھے، حضرت یعقوب ؑ کی آنکھیں حضرت یوسف ؑ کے غم میں سفید ہو گئی تھیں۔ اس کو بھول جانا ہمارے بس میں نہیں کہ یہی لگتا ہے کہ یہ سب ایک خواب ہے۔ ایسا ہم نہیں کرسکتے کہ یہ یکسر بھول جائیں کہ ہماری کبھی کوئی بیٹی تھی حالانکہ  شاید اس سے ہمارا غم بہت حد تک کم ہو جائے۔ لیکن یہاں معاملہ یہ ہے  کہ غم کو بھلانا مقصود نہیں ہے بلکہ اس غم کے ذریعے  اپنے رب تک پہنچنے کا راستہ آسان بنانا ہے۔ یہی ہے مومن کی زندگی کا  حال۔ مصیبت پر صبر  اور آسانی پر شکر۔ ہر دو صورتوں میں مقصد اور مقصود صرف ایک،  اور وہ یہ کہ ہمارا رب ہم سے خوش ہو جائے۔  لہٰذا  حضرت یعقوب ؑ کے الفاظ میں ہی  انما اشکوا بثی و حزنی الی اللہ    کہتے ہیں اور اللہ سے  یہی دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم کو اپنے فرمانبردار بندوں میں شامل کرلے اور انہی میں ہمیں رکھے۔ آمین۔

میں ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرپایا ہوں کہ میں نے یہ مضمون لکھا کیوں ہے۔ بس مجھے  بہت سوچنے کے بعد یہی سمجھ آیا کہ مجھے اپنے احساسات کو کاغذ پر منتقل کر لینا چاہیے۔ اگر آپ یہاں تک پڑھ رہے ہیں تو بس ایک چھوٹی سی بات چلتے چلتے اور عرض کر دوں کہ   اپنی اولاد پر پیسہ خرچ کرنے سے زیادہ کوشش اس بات کی کریں کہ اس کو بھرپور وقت اور توجہ دیں ۔ اپنی اولاد کو اپنے لیے صدقہ جاریہ بنانے کی کوشش کریں اور اپنے والدین کے لیے خود  صدقہ جاریہ بننے کی۔   اپنے پیاروں کے ساتھ وقت گذارنے میں خوشی محسوس کریں۔  میں نے جویریہ کو آخری دفعہ اس کی نانی کے گھر چھوڑا تھا اور وہ کمپیوٹر پر بیٹھی تھی، میں چپکے سے نکل گیا کہ اگر اس نے نکلتے ہوئے دیکھ لیا تو قیامت ڈھا دے گی۔ آپ ہی بتائیے  کہ  اگر  مجھے پتہ ہوتا کہ یہ میری اس سے آخری ملاقات ہے تو میں کبھی ایسے جاتا؟  وہ پورا دن اس کے ساتھ نہ گذار دیتا؟ اللہ نے ہم سے ہماری تقدیریں اوجھل رکھی ہیں ، ہم نہیں جانتے آگے کیا ہونے والا ہے، لیکن یہ تو کوشش کرسکتے ہیں نا کہ اپنے ہر الوداع کو خوشگوار بنا لیں، کیا پتہ پھر کتنے ہزار سال بعد کس جگہ کیسے ملاقات ہو؟

وقت بیعت کب ہوگا؟

Posted in Islam by baigsaab on April 17, 2012

کسی بھی قوم یا ملک کے لئے دو میں سے کوئی ایک ہی صورت ہوتی ہے . یا تو وہ حالت امن کی  ہوتی ہے یا جنگ کی . اسی طرح  ملکوں کی  جو  قسمیں معروف ہیں وہ  دار الاسلام اور دار الکفر،  اور  دار الحرب اور دار الامن ہیں. ان سب حالتوں اور قسموں کے لئے احکام اور فرائض اور واجبات کی تفصیلات میں فرق ہے اور کسی بھی مسلمان کے لئے یہ جاننا انتہائی ضروری ہے کہ وہ ان میں سے کس قسم کے احکامات کے ذیل میں آتا ہے اور اسی حساب سے اس کو اپنے اعمال کو ترتیب دینا چاہیے. یہ اتنا اہم سوال ہے جس کا جواب حاصل کرنا میرے نزدیک  ہرشخص کے لئے ضروری ہے. اسی لئے اس کے صحیح جواب کے حصول کے لئے میں اس خط کے ذریعے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے علمائےکرام کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہتا ہوں، بلا تخصیص فقہ و  مسلک.

جناب والا، جو حالات اس وقت اس سرزمین پر واقع ہورہے  ہیں وہ  کچھ سمجھ سے بالا تر ہیں. ایک طرف تو بازار اور ریستوراں بھرے رہتے ہیں اور دوسری طرف انہی گلیوں میں موت کا رقص ہو رہا ہے.یہ بہت پرانی بات نہیں ہے جب   لوگ اکیلے نہیں غول کے غول  اغواء ہورہے تھے. کراچی کی حالت مرغیوں کے اس ڈربے کی طرح ہو گئی ہے جس میں جب قصاب ہاتھ ڈالتا ہے تو ایک کھلبلی مچ جاتی ہے. اور جب قصاب اس میں سے اپنے مطلب کی مرغی نکال لیتا ہے تو وہ مرغی  تو چیخ چیخ کر  فریاد کرتی رہتی ہے لیکن دوسری مرغیاں اپنے دانے پانی میں مصروف ہو جاتی ہیں. کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس مرغی کی باقیات دوسری مرغیوں کو کھانے کو دے دی جاتی ہیں!

 ہمارے ملک میں  تقریباً  روز ایک بیرونی حملہ ہوتا ہے لیکن حکومت ایک مریل سے  احتجاجی بیان کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرتی.  یہ حالت  امن کی ہےیا  جنگ کی؟ یہ دار الامن ہے یا دار الحرب؟ کیا ہم پر کسی دشمن ملک نے حملہ کیا ہے؟ اگر ہاں تو ہم اس کے لئے کیا کرسکتے ہیں؟ اور اگر نہیں تو کیا امریکا ہمارا دوست ہے؟ اور کیا اسلام میں یہ بات پسندیدہ ہے کہ کوئی بھی کافر فوج مسلمانوں کے علاقے میں  آ کر  مسلمانوں کو مار دے وہ بھی بغیر کسی ثبوت  کے؟ اس بات میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں کہ ڈرون حملوں کو حکومتی حمایت ہی نہیں سرپرستی بھی حاصل ہے.موجودہ حکمران طبقہ باوجود اس کے کہ  ہماری تاریخ کے بعض  بد ترین لوگوں پر مشتمل ہے ، اس کو نہ  عدلیہ کی طرف سے کوئی خطرہ ہے نہ فوج اور نہ ہی اپوزیشن یا حلیف جماعتوں سے. ان سب کو  دارالحکومت میں موجود شاطر دماغ شخص نے اپنی چالوں میں ایسا پھنسایا ہے کہ اب اس حکومت کے خلاف کیا گیا کوئی بھی اقدام صرف اس حکومت کو ہی فائدہ پہنچائے گا اور کسی کو نہیں. اور سچ تو یہ ہے کہ اس نظام میں جو بھی آیا پچھلے والے سے بد تر آیا، تو یہ سوچتے ہوئے بھی ابکائی سی آتی ہے کہ اگر یہ گئے تو ان سے بد تر کیا ہو گا؟

محترمی ، یہ بات تقریبا تمام  فقہا کے نزدیک مسلم ہے کہ مسلمان حکمران کے خلاف خروج جائز نہیں جب تک وہ فرائض اور واجبات کی ادائیگی سے نہیں روک رہا.بلکہ بغاوت کرنے کا ارادہ بھی رکھنے  والے کو قتل کیا جا سکتا ہے.شاید اسی لئے پوری مسلم امہ میں جو کٹھ پتلی حکمران ہیں  انہوں نے نہ صرف یہ کہ عوام کو کبھی فرائض کی ادائیگی سے نہیں روکا بلکہ ان میں مزید بدعات اور رسومات  کی بھی ترویج کی تاکہ لوگوں کو لگے کہ وہ عبادت میں آزاد ہیں. ہمارے ملک میں بھی چاہے جمعہ یا عیدین کے اجتماعات ہوں یا محرّم و میلاد کے، حکومت ہر ممکن کوشش کرتی ہے کہ ان میں کوئی رکاوٹ نہ ہو.

لیکن کیا  فرائض کی ادائیگی کا مطلب یہ ہے کہ صرف نماز ، روزے، حج اور زکوۃ ٰ کی آزادی ہو؟ اسلام کےا ہم ترین فرائض میں سے ایک جہاد فی سبیل اللہ  بھی ہے جس کے  فرض ہو جانے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کوئی کافر ملک کسی اسلامی ملک پر حملہ آور ہو جائے. کیا یہ ڈرون حملے (جو آئے دن ہوتے رہتے ہیں ، نیز سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ والے واقعے کو بھی ابھی زیادہ دن نہیں گزرے)   ایک کافر ملک کا ایک مسلمان ملک پر حملہ نہیں کہلاتے؟ خصوصا جب کہ مرنے والے ٩۰ فیصد  لوگوں میں عورتیں، بوڑھے اور بچے شامل ہیں اور جو باقی دس فیصد مرتے ہیں ان کے خلاف بھی کوئی ثبوت  دینے کی زحمت وہ کافر ملک نہیں کرتا. کیا ان ڈرون حملوں کا جنگ کے حکم میں آنے کے لئے ضروری ہے کہ یہ حملے کراچی یا لاہور میں ہوں؟ کیا  وزیرستان، وانا اور ڈاما ڈولا میں رہنے والے مسلمان نہیں؟ کیا وہ پاکستان نہیں؟  اس بات سے قطع نظر کے یہ ڈرون ہمارے علاقوں سے اڑتے ہیں اور یہ کہ ان کو حکمران طبقے کی در پردہ پشت پناہی حاصل ہے، اس بات میں شمہ برابر بھی شک نہیں ہے کہ یہ ڈرون امریکی فوج کے ہیں جو اسرائیلی پالیسیوں اور دجالی ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں استعمال ہو رہے ہیں. کیا اب بھی جہاد فرض نہیں؟ کیا اب بھی حکومت فرائض ادا کرنے دے رہی ہے؟

جناب والا، یہ بات سچ ہے کہ ماضی میں کئی ایسے واقعات ہیں جن میں  آپ کے ہی بزرگوں نے ایسے ایسےمضبوط موقف اپنائے ہیں کہ حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑا. قادیانی فتنہ اس کا بیّن ثبوت ہے. لیکن فی زمانہ علماء کے لئے یہ بہت مشکل ہو گیا ہے کہ وہ حق کے  لیے آواز  بھی اٹھاسکیں چہ جائیکہ اس کے لئے ہتھیار اٹھائیں. مولانا غازی عبد الرشید نے یہ کام کیا تھا لیکن ان کووہیں دبا دیا گیا. لال مسجد کا حشر کر کے جہاں طاغوت نے اس “فتنہ” کا قلع قمع کیا وہیں اس نے یہ بات بھی یقینی بنا لی کہ  اب کوئی بھی  سرفروش امر با لمعروف و نہی عن المنکر  کی “خواہش” دل میں نہ پال سکے. دوران گزشتہ رمضان   پریس کانفرنس اس بات کا ثبوت ہےکہ علماء جو پہلے ہی “گوشہ نشین”  تھے ، اب کم گو  بھی ہو گئے ہیں . ان کو احساس ہے کہ کوئی بھی مہم جوئی ان کو نہ صرف تنہا کر دے گی بلکہ ان کا علمی ورثہ بھی ختم ہو سکتا ہے.  آپ کے سکوت میں یقینا کوئی مصلحت ہوگی لیکن کسی کا دنیاوی انجام ہرگز اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ کام کرنے کا نہیں.  لال مسجد  نے جو بھی کیا وہ مکمل طور پر صحیح  نہ سہی، لیکن غلط بھی نہیں. ان کا لائحہ عمل قابل اختلاف ہے لیکن مقصدنہیں.

حضرت، گستاخی کی معافی چاہتا ہوں لیکن آپ حضرات کے صبر کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے اس ملک میں کیا کیا کھیل کھیل دئیے گئے۔ نصاب میں سے جہاد کی آیات نکال دی گئیں۔ ہمارے ملک سے پکڑ پکڑ کر لا تعداد لوگوں کو غیر مسلم قوتوں کے حوالے کیا گیا۔ داڑھی اور جبہ و دستار کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ مخنث  کو ایک الگ جنس  قرار دے دیا گیا ہے جس کی وجہ سے آج اس ملک میں مرد سے مرد کی شادی کا قانونی راستہ نہ صرف کھل گیا ہے بلکہ اس قبیح فعل کا ارتکاب ہو بھی چکا ہے جس کو میڈیا میں کھلم کھلا دکھایا جا رہا ہے۔  آزادی اظہار رائے  اور روشن خیالی کے نام پر  فحش کلامی ، فحاشی اور عریانی کا بازار گرم کر دیا گیا۔ شراب اور دیگر منشیات اس وقت  تقریبا سر عام مل رہی ہیں۔  لوگوں سے بجلی، گیس اور دوسرے بلوں کی مد میں گزشتہ تاریخوں میں پیسے بڑھا کر اگلے مہینوں میں وصول کیے گئے جو کہ احقر کے علم کی حد تک نا جائز اور غیر شرعی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کو رہا کر دیا گیا جس کے لیے دیت کے قانون کا سہارا لیا گیا۔ ہمارے ملک کے حکمرانوں نے غیر مسلم حکمرانوں کو تعاون کے خطوط  لکھے اور پھر بھی مسند اقتدار سے ہلنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ یقین کریں کہ عوام صرف اس لئے چپ بیٹھے ہیں کہ علماء چپ بیٹھے ہیں. علماء TV پر آ کر رمضان کے فیوض و برکات پر درس دے دیتے ہیں لیکن حکمرانوں کی منافقت پر جمعہ کے خطبوں میں بھی شاذ  ہی بولا جاتا ہے. بلکہ قنوت نازلہ تک کی صدا کہیں سے نہیں آتی. محض قنوت نازلہ کی ملک گیر تحریک سے ہی کم از کم لوگوں میں بیداری کا جذبہ تو آئے گا. لوگ سوال کریں گے کہ یہ کیا ہے اور کیوں ہوتا ہے؟  کیا عجب لوگ اسی طرح اپنی حالت پر متوجہ ہو  جائیں.

اس وقت  ملک کے پانچوں وفاق المدارس میں لاکھوں طلباء پڑھ رہے ہیں. یہ  طلباء جہادکے موضوعات بھی پڑھ رہے ہیں اور خاص  قتال جیسے موضوعات بھی. جب وہ پڑھتے ہونگے کہ نبی اکرم ﷺ نے یہودیوں کے ایک قبیلے پر محض اس لئے چڑھائی کر دی تھی کہ اس نے ایک مسلمان کو قتل کیا تھا اور وہ مسلمان اس لئے قتل کیے گئے تھے کہ انہوں نے ایک مسلمان بہن کے سر سے دوپٹہ کھینچنے پر ایک یہودی کو قتل کر دیا تھا. وہ پڑھتے ہونگے کہ نبی رحمت ﷺ نے  کئی کئی دن قنوت نازلہ پڑھ کر کافروں کے لئے بد دعائیں کیں.  پھر  یہ طلباء دیکھتے ہیں کہ گاؤں کے گاؤں اور بستیوں کی بستیاں ہیں کہ قتل کی جارہی ہیں لیکن  نہ کہیں کوئی ذمہ دار شخص یہ کہتا ہے کہ یہ بند کرو اور نہ ہی کوئی بزرگ  ہاتھ خاص اس دعا کے لئے اٹھتا نظر آتا ہے.سمجھ نہیں آتا کہ  یہ مدارس اپنے ان بچوں کو کیونکر روک پاتے ہونگے جب ان بچوں کا خون کھولتا ہوگا. اس طاقت کو دجالی طاقتیں  بخوبی سمجھتی ہیں اسی لئے مستقل یہ کوشش جاری ہے کہ مدارس کو حکومتی اثر میں لے آیا جائے. اور وہ وقت آج یا کل میں آنے ہی والا ہے. آپ اپنے مدارس کو بچانے کے لئے افغان کاز  سے پیچھے  ہٹے تھے، جنگ پاکستان میں آگئی . آپ نے شمالی علاقوں سے لا تعلقی کا اعلان کیا، جنگ اب آپ کے شہروں میں  ہے. اور وہ دن دور نہیں جب آپ کو ایک ایک کر کے تنہا کیا جائے گا. پہلے ایک گرے گا پھر دوسرا پھر تیسرا. اور ہر دفعہ باقی سب کو یہ لگ رہا ہو گا کہ ان کے مدرسے کو کچھ نہیں کہا جائے گا کیونکہ وہ تو کچھ کر ہی نہیں رہے. اگر اس میں کوئی شک ہے تو ہمارے سامنے اندلس  کی تاریخ  بہت واضح نشانی ہے۔

یہ بات تو تسلیم شدہ ہے کہ جب جب اللہ اور رسول ﷺ کا نام لیا گیا ہے عوام اور خواص دونوں اپنے اپنے مسلکی اور فقہی اختلافات بھلا کر ان مقدس ناموں کی چھتری تلے جمع ہو گئے ہیں. علماء میں ایسے بزرگ آج بھی ہیں جن سے عوام اور خواص یکساں عقیدت رکھتے ہیں. ایسے بزرگ  اگر آواز دیں گے تو لوگ لازما پلٹیں گے. اور کچھ نہیں تو یہ لاکھوں طلبا جو آپ کے مدارس میں پڑھ رہے ہیں  وہ تو ان شاءاللہ آئیں گے ہی. ان کی رگوں میں دوڑتا اسلاف کا لہو کوئی ایسا بے وقعت بھی نہیں کہ جس میں غیرت ایمانی نہ ہو. اور عوام بھی اگر لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کے لئے سڑکوں پر آ سکتے ہیں تو ان میں سے کچھ تو  اللہ رسول ﷺ کے نام پر آئیں گے.

اپنے پہلے سوال پر واپس آتا ہوں۔ صرف اتنا حکم فرما دیجیے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اس وقت دارالاسلام ہے یا دارالحرب۔ دونوں صورتوں میں  خاص ہمارے ملک کے حساب سے احکامات مستنبط فرما دیں  اور اس کو عام کرنے کی اجازت دے دیں تو  ہم عوام کے لیے بہت سہولت ہو جائے گی۔ دوسری جانب اگر آپ سمجھتے ہیں کہ واقعی جہاد کی پکار لازم ہو چکی ہے تو آواز لگانا آپ پر فرض اور جہاد کے لئے بیعت لینا آپ کے لئے لازمی ہے. اور اگر  یہ سمجھتے ہوئے بھی آواز نہیں اٹھاتے تو  یقیناً بروز جزا اس مالک یوم الدین کو دینے کے لئے آپ کا  جواب تیّار ہو گا ہی.

و ما علینا الا البلاغ

Homeschooling: Why and How!

Posted in Social revolution by baigsaab on March 1, 2011

Blasphemy Law and The Dilemma of the Apologists!

Posted in Islam, protest by baigsaab on December 8, 2010

A few years back there was a huge uproar in the Muslim communities around the world over the Danish cartoon controversy. Protests in some parts such as Pakistan turned violent and angry mobs damaged private property apart from burning effigies of the culprits. This scribe had written a piece- in fact a series of articles– back then urging people to just ignore these insults as, in my opinion back then, that’s the only suitable reply. Apart from that, the series also tried to prove from the Seerah of RasooluLLAH (s.a.w.) and Sahaba (r.a.) that they always dealt with blasphemous behavior in the same way.

Well, I have to confess, I was ignorant of our history and I was foolishly wrong!

I guess now that I’ve read and heard a bit of our history (still not all of it obviously), I can tell you that there’s overwhelming evidence that the only suitable punishment against blasphemy to RasooluLLAH (s.a.w.) and all the prophets of ALLAH (s.w.t.) is death, and a swift one at that! Not only there’re instances that Sahaba (r.a.) killed blasphemers but they did so with the approval, and in some cases orders, of RasooluLLAH (s.a.w.).

Ka’b ibn Ashraf, Abu Rafay, Ibn Khatal and his two slavegirls, a jewish woman in Medina and lots of others are such criminals that were slain by Sahaba (r.a.) and, as is reported in numerous Hadith, with orders or approvals of RasooluLLAH (s.a.w.). Some were set up, some ambushed, some immediately killed, some properly executed.

The fact that such an important part of Seerat un Nabi (s.a.w.) is one of the most obscure ones is a mind-boggling phenomenon. We’ve been taught in our schools and colleges and higher levels that Islam is a religion of tolerance, that RasooluLLAH (s.a.w.) always fought when war was thrust upon Muslims and that RasooluLLAH (s.a.w.) pardoned each and every one of his enemies – even the killers of Hadhrat Hamza (r.a.)- on the day of Fath Makka,.

It turns out that we’ve been told only partial truths!

The history that we have been studying in our course book has been contorted; the Truth has been misconstrued. The roots of the current science-centric education system that we are following in Pakistan, can be traced back to two major movements historically: a) Malthusianism[1] and b) the Ali Garh movement[2]. It was with the efforts of Sir Syed Ahmed Khan that Muslims started studying the sciences and English language and his services can’t be denied. Yet, it was also largely due to his influence that Muslims, early after, adopted the already corrupt and infected education system set by British East India Company.

The advent of this modern education in Muslims became the main cause of promotion of a more docile version of Islam. A docile, rather toothless, version of Islam that practices non-violence to the core and goes to war only when war is thrust upon it. While that’s not entirely untrue, it’s not the whole truth either. There are countless examples when the offensive was taken by Muslims and took the Kuffar by surprise. Ghazwa Badr was well and truly the first proper battle between Muslims and Kuffar but what’s not told to us is that there were as many as eight military expeditions sent or led by RasooluLLAH (s.a.w.) before the battle of Badr. Each of those expeditions paid dividends and a large area in Hijaz which was earlier under allegiance with Quraish either became a Muslim ally or became neutral. Also, there’re a lot of examples of preemptive strikes out of which the famous battle of Khyber and the battle of Bani Al-Mustaliq are famous. Reading our history in this way casts a totally different light altogether to how we should go about our religious duties. But by and large, these incidents have been obscured by our education system and either inadvertently or intentionally created breeds after breeds of apologists whose life’s work is to deny such important elements of our history.

Some glaring examples can be found in response to the recent case of Aasia Maseeh, the woman convicted of blasphemy against RasooluLLAH (s.a.w.). While there are liberal fascist making raucous noises to repeal the blasphemy law altogether, there are also some apologists, senior opinion-makers in the print and electronic media, who are trying to remind us of the tolerance in our religion, that a mother of 5 children – one of which is disabled- should be pardoned, especially after she says she’s sorry. There are also such daft columnists who see Salman Taseer’s hasty visit with his family to the convicted woman in prison and conducting a press conference there as an act out of empathy. It’s beyond words how disgusted the people of Pakistan are with the efforts of the ruling class to have a convict of blasphemy pardoned, that too on the orders of Pope Benedict, while the same ruling elite is tightlipped over the abduction and illegitimate trial of Dr Aafia Siddiqui.

But even if we assume that the government will go the whole nine yards to get Aasia removed to some western country, it seems appropriate at this point to see if pardoning Aasia Maseeh is within the power of the government or not.

Apologists claim that RasooluLLAH (s.a.w.) pardoned everyone who ever said anything foul to him. They give the examples of the women who threw garbage on RasooluLLAH (s.a.w.) daily, whom he (s.a.w.) had visited when she’d fallen ill. They also give the examples of conquest of Makka (Fath Makka) when he (s.a.w.) pardoned everyone in Makka. They also claim Aasia Maseeh said she’s sorry and has hence repented. They also say that Aasia is a non Muslim and Muslim capital punishment is not applicable to her. They say she’s a women and she’s poor so she should be pardoned. That we should pardon her to show goodwill towards west and thus pave the way to Islam’s preaching.

First of all, the amnesty on the day of the Fath Makka was for everyone, except there was a black list. A list of those who were to be slain even if they were found hanging with the curtains of Kabba, the most sacred of sacred places on earth. Ibn Khatal, as it goes, was found exactly in this situation and still was executed. There were two slavegirls of Ibn Khatal who used to sing absurdities against RasooluLLAH (s.a.w.) and they were also in that list. It’s important to note that they were also women like Aasia, they were also non-muslims like her, they probably were also poor, in fact they were slaves and hence had no free will, still they were executed. Ibn Taimiyah says that it shows that blasphemy against RasooluLLAH (s.a.w.) is an even greater crime than murder.

Secondly, even if we agree that RasooluLLAH (s.a.w.) pardoned some when he found it appropriate, it should stand as his prerogative and that’s it. Now we can’t pardon anyone on his behalf. Neither the government, nor the complainant.

Thirdly, even if she’s sorry for what she did doesn’t make her crime any milder. It’s similar if a murderer on the death row says he’s sorry, doesn’t absolve him of his crime. After all we’ve just seen that the crime that was perpetrated here was bigger than murder. It’s the verdict of scholars new and old, that the perpetrator of blasphemy should be killed immediately and not to be given a chance.

Lastly, we shouldn’t pardon her to just show our goodwill towards the west. Just to show how tolerant we are. That’s the most absurd excuse to do something equally absurd. If we had dealt with blasphemers in the way of Sahaba (r.a.) lately, our outlook would be a lot more different from it is today. It’s because of this tolerant behavior that any tom, harry or dick could say or write what he likes about our sacred personalities. If Salman Rushdi had been slain back then in the eighties, or Tasleema Nasreen back in the nineties, or the perpetrators of the European newspapers controversy had been killed back then, we would be a lot better off than we are today. Every time something like this happens, our response has grown weaker. And now it has come down to the point where our government is trying to dodge its public to provide safe passage to a convict of blasphemy. I seek refuge with ALLAH (s.w.t.) from the day when our public would be trying to save such a criminal from punishment.

As an afterthought, we probably should agree with the liberal fascists on one thing. That the blasphemy law should be repealed altogether. As it happens, having a law for a crime makes the punishment predictable. And when something is predictable it’s all the more defendable. If there’s no blasphemy law, then public would do justice on its own. The anticipation of punishment would be all the more painful for the perpetrators as the punishment itself.

There would be a Ghazi Ilm Deen Shaheed on every street, every city! 


[1] Malthusianism refers to the political/economic thought of Reverend and indirect employee of British East India Company Thomas Robert Malthus, whose ideas were first developed during the industrial revolution. It follows his 1798 writings, An Essay on the Principle of Population, which had a great impact on the way British East India Company managed India; it had a great impact on economic\political\education policies of Great Britain.
[2] Aligarh Movement was the movement led by Sir Syed Ahmed Khan, to educate the Muslims of the Indian subcontinent after the defeat of the rebels in the Indian rebellion of 1857.