Baigsaab's Blog

وقت بیعت کب ہوگا؟

Posted in Islam by baigsaab on April 17, 2012

کسی بھی قوم یا ملک کے لئے دو میں سے کوئی ایک ہی صورت ہوتی ہے . یا تو وہ حالت امن کی  ہوتی ہے یا جنگ کی . اسی طرح  ملکوں کی  جو  قسمیں معروف ہیں وہ  دار الاسلام اور دار الکفر،  اور  دار الحرب اور دار الامن ہیں. ان سب حالتوں اور قسموں کے لئے احکام اور فرائض اور واجبات کی تفصیلات میں فرق ہے اور کسی بھی مسلمان کے لئے یہ جاننا انتہائی ضروری ہے کہ وہ ان میں سے کس قسم کے احکامات کے ذیل میں آتا ہے اور اسی حساب سے اس کو اپنے اعمال کو ترتیب دینا چاہیے. یہ اتنا اہم سوال ہے جس کا جواب حاصل کرنا میرے نزدیک  ہرشخص کے لئے ضروری ہے. اسی لئے اس کے صحیح جواب کے حصول کے لئے میں اس خط کے ذریعے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے علمائےکرام کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہتا ہوں، بلا تخصیص فقہ و  مسلک.

جناب والا، جو حالات اس وقت اس سرزمین پر واقع ہورہے  ہیں وہ  کچھ سمجھ سے بالا تر ہیں. ایک طرف تو بازار اور ریستوراں بھرے رہتے ہیں اور دوسری طرف انہی گلیوں میں موت کا رقص ہو رہا ہے.یہ بہت پرانی بات نہیں ہے جب   لوگ اکیلے نہیں غول کے غول  اغواء ہورہے تھے. کراچی کی حالت مرغیوں کے اس ڈربے کی طرح ہو گئی ہے جس میں جب قصاب ہاتھ ڈالتا ہے تو ایک کھلبلی مچ جاتی ہے. اور جب قصاب اس میں سے اپنے مطلب کی مرغی نکال لیتا ہے تو وہ مرغی  تو چیخ چیخ کر  فریاد کرتی رہتی ہے لیکن دوسری مرغیاں اپنے دانے پانی میں مصروف ہو جاتی ہیں. کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس مرغی کی باقیات دوسری مرغیوں کو کھانے کو دے دی جاتی ہیں!

 ہمارے ملک میں  تقریباً  روز ایک بیرونی حملہ ہوتا ہے لیکن حکومت ایک مریل سے  احتجاجی بیان کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرتی.  یہ حالت  امن کی ہےیا  جنگ کی؟ یہ دار الامن ہے یا دار الحرب؟ کیا ہم پر کسی دشمن ملک نے حملہ کیا ہے؟ اگر ہاں تو ہم اس کے لئے کیا کرسکتے ہیں؟ اور اگر نہیں تو کیا امریکا ہمارا دوست ہے؟ اور کیا اسلام میں یہ بات پسندیدہ ہے کہ کوئی بھی کافر فوج مسلمانوں کے علاقے میں  آ کر  مسلمانوں کو مار دے وہ بھی بغیر کسی ثبوت  کے؟ اس بات میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں کہ ڈرون حملوں کو حکومتی حمایت ہی نہیں سرپرستی بھی حاصل ہے.موجودہ حکمران طبقہ باوجود اس کے کہ  ہماری تاریخ کے بعض  بد ترین لوگوں پر مشتمل ہے ، اس کو نہ  عدلیہ کی طرف سے کوئی خطرہ ہے نہ فوج اور نہ ہی اپوزیشن یا حلیف جماعتوں سے. ان سب کو  دارالحکومت میں موجود شاطر دماغ شخص نے اپنی چالوں میں ایسا پھنسایا ہے کہ اب اس حکومت کے خلاف کیا گیا کوئی بھی اقدام صرف اس حکومت کو ہی فائدہ پہنچائے گا اور کسی کو نہیں. اور سچ تو یہ ہے کہ اس نظام میں جو بھی آیا پچھلے والے سے بد تر آیا، تو یہ سوچتے ہوئے بھی ابکائی سی آتی ہے کہ اگر یہ گئے تو ان سے بد تر کیا ہو گا؟

محترمی ، یہ بات تقریبا تمام  فقہا کے نزدیک مسلم ہے کہ مسلمان حکمران کے خلاف خروج جائز نہیں جب تک وہ فرائض اور واجبات کی ادائیگی سے نہیں روک رہا.بلکہ بغاوت کرنے کا ارادہ بھی رکھنے  والے کو قتل کیا جا سکتا ہے.شاید اسی لئے پوری مسلم امہ میں جو کٹھ پتلی حکمران ہیں  انہوں نے نہ صرف یہ کہ عوام کو کبھی فرائض کی ادائیگی سے نہیں روکا بلکہ ان میں مزید بدعات اور رسومات  کی بھی ترویج کی تاکہ لوگوں کو لگے کہ وہ عبادت میں آزاد ہیں. ہمارے ملک میں بھی چاہے جمعہ یا عیدین کے اجتماعات ہوں یا محرّم و میلاد کے، حکومت ہر ممکن کوشش کرتی ہے کہ ان میں کوئی رکاوٹ نہ ہو.

لیکن کیا  فرائض کی ادائیگی کا مطلب یہ ہے کہ صرف نماز ، روزے، حج اور زکوۃ ٰ کی آزادی ہو؟ اسلام کےا ہم ترین فرائض میں سے ایک جہاد فی سبیل اللہ  بھی ہے جس کے  فرض ہو جانے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کوئی کافر ملک کسی اسلامی ملک پر حملہ آور ہو جائے. کیا یہ ڈرون حملے (جو آئے دن ہوتے رہتے ہیں ، نیز سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ والے واقعے کو بھی ابھی زیادہ دن نہیں گزرے)   ایک کافر ملک کا ایک مسلمان ملک پر حملہ نہیں کہلاتے؟ خصوصا جب کہ مرنے والے ٩۰ فیصد  لوگوں میں عورتیں، بوڑھے اور بچے شامل ہیں اور جو باقی دس فیصد مرتے ہیں ان کے خلاف بھی کوئی ثبوت  دینے کی زحمت وہ کافر ملک نہیں کرتا. کیا ان ڈرون حملوں کا جنگ کے حکم میں آنے کے لئے ضروری ہے کہ یہ حملے کراچی یا لاہور میں ہوں؟ کیا  وزیرستان، وانا اور ڈاما ڈولا میں رہنے والے مسلمان نہیں؟ کیا وہ پاکستان نہیں؟  اس بات سے قطع نظر کے یہ ڈرون ہمارے علاقوں سے اڑتے ہیں اور یہ کہ ان کو حکمران طبقے کی در پردہ پشت پناہی حاصل ہے، اس بات میں شمہ برابر بھی شک نہیں ہے کہ یہ ڈرون امریکی فوج کے ہیں جو اسرائیلی پالیسیوں اور دجالی ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں استعمال ہو رہے ہیں. کیا اب بھی جہاد فرض نہیں؟ کیا اب بھی حکومت فرائض ادا کرنے دے رہی ہے؟

جناب والا، یہ بات سچ ہے کہ ماضی میں کئی ایسے واقعات ہیں جن میں  آپ کے ہی بزرگوں نے ایسے ایسےمضبوط موقف اپنائے ہیں کہ حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑا. قادیانی فتنہ اس کا بیّن ثبوت ہے. لیکن فی زمانہ علماء کے لئے یہ بہت مشکل ہو گیا ہے کہ وہ حق کے  لیے آواز  بھی اٹھاسکیں چہ جائیکہ اس کے لئے ہتھیار اٹھائیں. مولانا غازی عبد الرشید نے یہ کام کیا تھا لیکن ان کووہیں دبا دیا گیا. لال مسجد کا حشر کر کے جہاں طاغوت نے اس “فتنہ” کا قلع قمع کیا وہیں اس نے یہ بات بھی یقینی بنا لی کہ  اب کوئی بھی  سرفروش امر با لمعروف و نہی عن المنکر  کی “خواہش” دل میں نہ پال سکے. دوران گزشتہ رمضان   پریس کانفرنس اس بات کا ثبوت ہےکہ علماء جو پہلے ہی “گوشہ نشین”  تھے ، اب کم گو  بھی ہو گئے ہیں . ان کو احساس ہے کہ کوئی بھی مہم جوئی ان کو نہ صرف تنہا کر دے گی بلکہ ان کا علمی ورثہ بھی ختم ہو سکتا ہے.  آپ کے سکوت میں یقینا کوئی مصلحت ہوگی لیکن کسی کا دنیاوی انجام ہرگز اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ کام کرنے کا نہیں.  لال مسجد  نے جو بھی کیا وہ مکمل طور پر صحیح  نہ سہی، لیکن غلط بھی نہیں. ان کا لائحہ عمل قابل اختلاف ہے لیکن مقصدنہیں.

حضرت، گستاخی کی معافی چاہتا ہوں لیکن آپ حضرات کے صبر کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے اس ملک میں کیا کیا کھیل کھیل دئیے گئے۔ نصاب میں سے جہاد کی آیات نکال دی گئیں۔ ہمارے ملک سے پکڑ پکڑ کر لا تعداد لوگوں کو غیر مسلم قوتوں کے حوالے کیا گیا۔ داڑھی اور جبہ و دستار کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ مخنث  کو ایک الگ جنس  قرار دے دیا گیا ہے جس کی وجہ سے آج اس ملک میں مرد سے مرد کی شادی کا قانونی راستہ نہ صرف کھل گیا ہے بلکہ اس قبیح فعل کا ارتکاب ہو بھی چکا ہے جس کو میڈیا میں کھلم کھلا دکھایا جا رہا ہے۔  آزادی اظہار رائے  اور روشن خیالی کے نام پر  فحش کلامی ، فحاشی اور عریانی کا بازار گرم کر دیا گیا۔ شراب اور دیگر منشیات اس وقت  تقریبا سر عام مل رہی ہیں۔  لوگوں سے بجلی، گیس اور دوسرے بلوں کی مد میں گزشتہ تاریخوں میں پیسے بڑھا کر اگلے مہینوں میں وصول کیے گئے جو کہ احقر کے علم کی حد تک نا جائز اور غیر شرعی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کو رہا کر دیا گیا جس کے لیے دیت کے قانون کا سہارا لیا گیا۔ ہمارے ملک کے حکمرانوں نے غیر مسلم حکمرانوں کو تعاون کے خطوط  لکھے اور پھر بھی مسند اقتدار سے ہلنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ یقین کریں کہ عوام صرف اس لئے چپ بیٹھے ہیں کہ علماء چپ بیٹھے ہیں. علماء TV پر آ کر رمضان کے فیوض و برکات پر درس دے دیتے ہیں لیکن حکمرانوں کی منافقت پر جمعہ کے خطبوں میں بھی شاذ  ہی بولا جاتا ہے. بلکہ قنوت نازلہ تک کی صدا کہیں سے نہیں آتی. محض قنوت نازلہ کی ملک گیر تحریک سے ہی کم از کم لوگوں میں بیداری کا جذبہ تو آئے گا. لوگ سوال کریں گے کہ یہ کیا ہے اور کیوں ہوتا ہے؟  کیا عجب لوگ اسی طرح اپنی حالت پر متوجہ ہو  جائیں.

اس وقت  ملک کے پانچوں وفاق المدارس میں لاکھوں طلباء پڑھ رہے ہیں. یہ  طلباء جہادکے موضوعات بھی پڑھ رہے ہیں اور خاص  قتال جیسے موضوعات بھی. جب وہ پڑھتے ہونگے کہ نبی اکرم ﷺ نے یہودیوں کے ایک قبیلے پر محض اس لئے چڑھائی کر دی تھی کہ اس نے ایک مسلمان کو قتل کیا تھا اور وہ مسلمان اس لئے قتل کیے گئے تھے کہ انہوں نے ایک مسلمان بہن کے سر سے دوپٹہ کھینچنے پر ایک یہودی کو قتل کر دیا تھا. وہ پڑھتے ہونگے کہ نبی رحمت ﷺ نے  کئی کئی دن قنوت نازلہ پڑھ کر کافروں کے لئے بد دعائیں کیں.  پھر  یہ طلباء دیکھتے ہیں کہ گاؤں کے گاؤں اور بستیوں کی بستیاں ہیں کہ قتل کی جارہی ہیں لیکن  نہ کہیں کوئی ذمہ دار شخص یہ کہتا ہے کہ یہ بند کرو اور نہ ہی کوئی بزرگ  ہاتھ خاص اس دعا کے لئے اٹھتا نظر آتا ہے.سمجھ نہیں آتا کہ  یہ مدارس اپنے ان بچوں کو کیونکر روک پاتے ہونگے جب ان بچوں کا خون کھولتا ہوگا. اس طاقت کو دجالی طاقتیں  بخوبی سمجھتی ہیں اسی لئے مستقل یہ کوشش جاری ہے کہ مدارس کو حکومتی اثر میں لے آیا جائے. اور وہ وقت آج یا کل میں آنے ہی والا ہے. آپ اپنے مدارس کو بچانے کے لئے افغان کاز  سے پیچھے  ہٹے تھے، جنگ پاکستان میں آگئی . آپ نے شمالی علاقوں سے لا تعلقی کا اعلان کیا، جنگ اب آپ کے شہروں میں  ہے. اور وہ دن دور نہیں جب آپ کو ایک ایک کر کے تنہا کیا جائے گا. پہلے ایک گرے گا پھر دوسرا پھر تیسرا. اور ہر دفعہ باقی سب کو یہ لگ رہا ہو گا کہ ان کے مدرسے کو کچھ نہیں کہا جائے گا کیونکہ وہ تو کچھ کر ہی نہیں رہے. اگر اس میں کوئی شک ہے تو ہمارے سامنے اندلس  کی تاریخ  بہت واضح نشانی ہے۔

یہ بات تو تسلیم شدہ ہے کہ جب جب اللہ اور رسول ﷺ کا نام لیا گیا ہے عوام اور خواص دونوں اپنے اپنے مسلکی اور فقہی اختلافات بھلا کر ان مقدس ناموں کی چھتری تلے جمع ہو گئے ہیں. علماء میں ایسے بزرگ آج بھی ہیں جن سے عوام اور خواص یکساں عقیدت رکھتے ہیں. ایسے بزرگ  اگر آواز دیں گے تو لوگ لازما پلٹیں گے. اور کچھ نہیں تو یہ لاکھوں طلبا جو آپ کے مدارس میں پڑھ رہے ہیں  وہ تو ان شاءاللہ آئیں گے ہی. ان کی رگوں میں دوڑتا اسلاف کا لہو کوئی ایسا بے وقعت بھی نہیں کہ جس میں غیرت ایمانی نہ ہو. اور عوام بھی اگر لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کے لئے سڑکوں پر آ سکتے ہیں تو ان میں سے کچھ تو  اللہ رسول ﷺ کے نام پر آئیں گے.

اپنے پہلے سوال پر واپس آتا ہوں۔ صرف اتنا حکم فرما دیجیے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اس وقت دارالاسلام ہے یا دارالحرب۔ دونوں صورتوں میں  خاص ہمارے ملک کے حساب سے احکامات مستنبط فرما دیں  اور اس کو عام کرنے کی اجازت دے دیں تو  ہم عوام کے لیے بہت سہولت ہو جائے گی۔ دوسری جانب اگر آپ سمجھتے ہیں کہ واقعی جہاد کی پکار لازم ہو چکی ہے تو آواز لگانا آپ پر فرض اور جہاد کے لئے بیعت لینا آپ کے لئے لازمی ہے. اور اگر  یہ سمجھتے ہوئے بھی آواز نہیں اٹھاتے تو  یقیناً بروز جزا اس مالک یوم الدین کو دینے کے لئے آپ کا  جواب تیّار ہو گا ہی.

و ما علینا الا البلاغ