پھل
درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ بیر کے درخت سے فالسے نکل آئیں، یا آم کے درخت میں سیب آجائیں۔
تو ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے دن اور رات ایک ہو جائیں؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ہمارے اندر تو آخرت کا یقین ہو اور ان کے اندر نہ ہو اور پھر بھی انتظار دونوں کو نئی فلم کا ہو، آخرت کا نہ ہو! ہم کہاں ایسی زندگی گزارنے لگے کہ ہفتے کے پانچ دن حلال جانوروں کی طرح کام کیا اور باقی دو دن حرام جانوروں کی طرح تفریح۔ یعنی انسان بننا ممکن ہی نہیں؟ اگر ان کی زندگی کا محور تفریح ہے تو ان کے پاس یہ ‘یقین’ ہے کہ اس عالم کے بعد کچھ نہیں۔ ہمارے پاس کیا یقین ہے؟ نئی سے نئی فلم دیکھنے کی دوڑ میں ہم کہاں شامل ہو سکتے ہیں؟ ایک میچ سے دوسرا میچ، ایک سیریز سے دوسری سیریز؟
ہمارے پاس بزعم خود وہ ‘کتاب زندہ’ ہے جو اس دنیا کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ تو ہماری اپنی کایا کیوں نہیں پلٹ رہی؟
جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے تو ہم سب کے سب ایک ہڑبونگ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تو تو میں میں کا ایک لا متناہی سلسلہ ہوتا ہے جو مصیبت سے بڑھ کر مصیبت ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم وہ لوگ جن کو ان کے ماں باپ یا بہن بھائیوں نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے پڑھا لکھا کر اس قابل بنایا کہ وہ اس دنیا کو اس سے بہتر جگہ بنائیں، ہم نے بھی اپنی زندگی کو ویک ڈے اور ویک اینڈ میں بانٹ لیا ہے۔ کوئی ایک مفید بات، کوئی تعمیری کام، کوئی مثبت سوچ ہمارے پاس کیوں اپنا گھر نہیں بناتی؟ خدارا میں تفریح کے خلاف نہیں،میں خود تفریح کرتا ہوں تو اس کی مخالفت کیسے کروں؟ مجھے بس کوفت اس بات سے ہوتی ہے کہ جب اٹھارہ بیس سال تعلیم پائے لوگوں کے سامنے بھی زندگی محض ایک ویک اینڈ سے دوسرے کا سفر رہ جاتی ہے تو اس معاشرے میں واقعی سدھار بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
امید کی بات مگر یہ ہے کہ دل کی زمین میں بیج کسی بھی وقت بویا جا سکتا ہے۔ ہر دل میں اپنا ہی ایک موسم ہوتا ہے۔ اور ہر دل اپنے خاص طریقے سے ہی بیجوں کی افزائش کرتا ہے۔ دلوں میں قرآن کا ہل چلائیں، دعاؤں کی بارش کریں، ایمان کا بیج ان شاء اللہ ضرور اگتا ہے۔ اور اس کا پھل ایسے دن رات نہیں ہوتے جیسے آج کل ہمارے ہیں۔
قبولیت!-
زمانہ جاہلیت میں بھی عرب میں کچھ چیزوں کی حرمت مسلّم تھی جیسے حرمت والے مہینے، مہمان اور وعدہ و عہد ۔ بیت اللہ ان حرمت والی چیزوں میں سے غالباً واحد عمارت تھی۔ الرحیق المختوم کے مطابق رسول اللہؐ کی عمر مبارک کا پینتیسواں (35) سال تھا کہ قریش نے بیت اللہ کی تعمیر نو کا ارادہ کیا۔ اس ارادے کے پیچھے جو بھی مقاصد ان کے ہوں اس کے لیئے جو فیصلہ انہوں نے کیا وہ یہ تھا کہ اللہ کے اس گھر کی تعمیر میں اپنی حرام کمائیوں میں سے ایک پیسہ بھی شامل نہیں کریں گے۔ چنانچہ طوائفوں کا مال، سود اور کسی سے ناحق چھینا ہوا مال اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ بالآخر خانہ کعبہ کی تعمیر جب شروع ہوئی تو پتہ چلا کہ مال کم پڑ گیا ہے اورچوتھی طرف کی دیوار بن نہیں سکے گی تو ان ‘مشرکوں’ نے اس چوتھی جگہ کی لمبائی کم کر کے آخر میں ایک چھوٹی دیوار اٹھا دی۔ اس دیوار کو ہم حطیم کے نام سے جانتے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ جاہل عرب بدو جن کے سامنے زندگی کا کوئی اعلیٰ مقصد، کوئی منزل، کوئی آخرت کا شوق کچھ بھی نہیں تھا، وہ تو اللہ کے لیئے کیئے گئے کام میں حرام کی آمیزش نہ کریں چاہے بقیہ عرب میں ہنسی اڑ جائے کہ ان سے کعبہ کی تعمیر بھی نہ ہو سکی۔ اور ہم جن کے لیئے ‘تھیوری’ میں اصل زندگی آخرت کی ہے، وہ نمازیں بھی پڑھیں مگر ساتھ ہی سود بھی کھائیں کھلائیں، اسی مال سے زکوٰۃ بھی دیں اور صدقات بھی۔ قرآن کھول کر نہ دیکھیں اور حدیث کو نہ سنیں کہ دیکھ یا سن لیا تو عمل واجب ہو جائے گا۔
ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی بری عادت میں ملوث ہے۔ کسی کو جھوٹ بولنے کی عادت ہے، کسی کو وعدہ خلافی کی، کسی کو امانت کے مطلب ہی نہیں پتہ تو کوئی سود خوری میں ملوث ہے، کوئی بے پردگی کو اپنا تکیہ بنائے بیٹھا ہے تو کوئی غیبت اور چغلیاں ہی کرتا بیٹھا رہتا ہے۔
خوشخبری یہ ہے کہ ہماری مدد کے لیے اللہ نے رمضان کو ایک دفعہ پھر بھیج دیا ہے۔ شیاطین جن قید کر دئیے جائیں گے۔ ہر طرف قرآن اور حدیث کی آوازیں آرہی ہونگی۔ دیکھا جائے تو یہ مقابلہ برابر کا نہیں ہے۔ اللہ نے ہمارے نفس کو تنہا کردیا ہے کہ اس کی مدد کے لیئے اب کوئی نہیں آئے گا۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس دفعہ بھی اپنے نفس کے لیئے عذر تلاش کرتے ہیں یا اس دفعہ ہم اپنے آپ کو اس غلاظت سے نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس کا نام گناہ کبیرہ ہے۔
اللہ کو نہ ہمارا بھوکا رہنا کوئی فائدہ دے سکتا ہے۔ نہ مال خرچ کرنا اس کی سلطنت میں کوئی اضافہ کر سکتا ہے جو بھی نیکی کرے گا اپنے بھلے کے لیئے کرے گا، جو بھی برائی کرے گا اپنا نقصان کرے گا۔
اور قریش کے اس عمل سے ایک چیز جو مجھے دیکھنے کو ملی وہ یہ کہ جب حجر اسود کو نصب کرنے کا وقت آیا تو اللہ نے اپنے نبیؐ کے ہی دست مبارک سے اس کام کو انجام دلوایا۔ کیا پتہ ہمیں بھی اپنے اعمال کی ایسی ہی قبولیت نصیب ہو جائے !!! آمین!
اباجی
آج پھر اباجی نے بستر میں پیشاب کر دیا تھا۔
عمر بھی تو بہت ہو گئی تھی ان کی۔ ستتر سال۔ شوگر الگ۔ بی پی الگ۔ اتنی چیزوں میں کبھی کبھی کوئی بھول بھی جاتا ہے کہ اباجی کا ‘پلاسٹک’ اپنی جگہ پر ہے کہ نہیں! بس یہی بھول گئی تھی خادمہ بھی۔بہو نے خادمہ کے خوب لتے لیے کہ اس بار اس کے جہیز کا لحاف بھی کام آگیا تھا۔ ہنگامہ تو نہ کیا ۔ مگر اب کی بار اس نے میاں سے بات کرنے کی ٹھان لی تھی۔ سب تھک چکے تھے اب۔
“سنیئے مجھے کچھ بات کرنی ہے۔ ”
“جانتا ہوں، اباجی کو اولڈہوم میں چھڑوانا چاہ رہی ہوگی پھر!”
“تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟”
“حرج؟؟ باپ ہے وہ میرا! اس کو اٹھا کر اس کوڑے دان میں ڈال کر آجاؤں؟ “
“کوڑے دان؟ خواب میں بھی نہیں ملتی ایسی جگہ! کتنے ایکڑ پر تھا وہ اولڈ ہوم؟ ہاں ۔۔۔ پورے پندرہ ایکڑ پر! کیا نہیں تھا وہاں۔ ہمارے یہاں تو چھ گھنٹے بجلی جاتی ہے۔ وہاں؟ کوئی لوڈشیڈنگ نہیں؟ ہر بزرگ کا اپنا کمرہ۔ اپنا کھانے کا مینیو۔ اپنا خادم۔ جب چاہا اٹھ کر باغ میں چلے گئے۔ جب چاہا ساتھیوں سے گپیں لگالیں۔۔۔ میں تو کہتی ہوں ایسے ٹھاٹ تو بادشاہوں کے ہوتے ہیں”
“ہم تو نہیں ہونگے نا وہاں”
“تو آپ تو یہاں بھی نہیں ہوتے۔ ایک ایک ہفتہ گزر جاتا ہے بچے آپ کی شکل نہیں دیکھ پاتے۔ اباجی کو آخری دفعہ سلام کب کیا تھا آپ نے؟ “
“پھر بھی۔ یہ میرا گھر ہے۔ اپنے گھر سے اپنے باپ کو نکالوں گا تو دنیا تھوکے گی مجھ پر۔”
“دنیا کو تو رہنے ہی دیں آپ، کسی کے پاس اتنا فالتو وقت نہیں کہ دوسروں کی زندگیوں میں جھانکتا پھرے۔ آپ کے دونوں بھائی پہلے ہی باہرہیں اور خود کے فیس کے پیسے پورے نہیں ہو پارہے، اباجی کو کیسے رکھیں گے؟ اور وہ ہم جو امیگریشن ویز ا کے لیئے انتظار کر رہے ہیں؟ وہ آگیا تو اباجی کو تو آپ لے جا نہیں سکتے ساتھ۔ ۔ پھر کیا کریں گےآپ ؟ میری مانیں ابھی اپنے سامنے سارے انتظام کروا لیں۔ تاکہ کوئی اونچ نیچ ہو جائے تو خود دیکھ لیں۔ “
اس کے ہاتھ میں اباجی کا فوٹو تھا جس میں وہ اس کے گریجوئیشن کے دن امی کے ساتھ بہت ہی خوش لگ رہے تھے۔ اب دونوں ہی اس دنیا میں نہیں تھے۔ امی تو خیر دس سال پہلے ہی چل بسی تھیں۔ اولڈ ہوم میں اباجی بھی۔ ایک ہفتہ بھی تو نہ نکال پائے۔ خادم نے چوتھے دن صبح ان کا کمرہ کھولا تو نیند میں ہی چل بسے تھے۔ بستر بالکل خشک تھا۔ غالباً شروع رات میں ہی انتقال کر گئے تھے۔آہٹ کی آواز آئی تو اس نے دیکھا سامنے دانیال کھڑا تھا۔ آٹھ سال کا تھا دانیال۔ دادا کا لاڈلا۔ اس کے ہاتھ میں اس کا چھوٹا بیگ تھا جو وہ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے خالہ کے گھر لے کر گیا تھا۔
“یہ تم کہاں جارہے ہو؟ “
“آپ بھیجیں گے نا”
“میں کہاں بھیجوں گا”
“جہاں دادا کو بھیجا تھا”
“کیوں؟”
“!!-وہ۔۔۔۔ رات کو سوتے میں۔ میں نے بلینکٹ خراب کر دیا تھا”
لوگ کیوں زندگی میں آتے ہیں!۔
ہر شخص اس دنیا میں اکیلا آیا ہے اور اکیلا ہی جائے گا۔ کوئی کتنا ہی پیارا ہو جائے اس کے جانے کے باوجود، اس کی کہانی ختم ہونے کے باوجود ہماری کہانی چلتی رہتی ہے۔ ایک دن وہ بھی ختم ہو جائے گی، ہونا ہی ہے، اس دنیا میں آئے کیوں ہیں، واپس جانے کے لیے! تو اگر اکیلا پن ہی حقیقت ہے تو لوگ آتے کیوں ہیں ہماری کہانی میں؟ میرا ماننا ہے کہ اتفاق نام کی کوئی چیز ہوتی ہی نہیں ۔ یہ اتفاق نہں ہے کہ ہم کس گھر میں پیدا ہوئے، کن دو لوگوں کی اولاد ہوئے، کن کے بھائی یا بہن ہوئے، کن کے شریک حیات ہوئے، کن کے دوست ہوئے، کہاں کام کرتے ہیں، کیا کام کرتے ہیں، بلکہ کوئی شخص بالوں کا کیا رنگ لے کر آیا ہے، یہ بھی اتفاق نہیں ہے۔
تو اگر سب کچھ ہی پہلے سے طے شدہ ہے تو ہمارے کرنے کا کام ہے کیا؟ کیوں ہمیں شعور دیا گیا ہے؟ کیوں اگر کوئی اپنا، کوئی پیارا بچھڑ جائے تو ہمیں دکھ ہوتا ہے؟ کیوں کسی پرانے دوست کی کسی پرانی بات سوچ کر آپ ہی آپ ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر جاتی ہے؟ کیوں لوگ یاد آتے ہیں؟ کیوں ایسا ہوتا ہے کہ ویسے تو مہینوں بیت جاتے ہیں ملے ہوئے مگر جب پتہ چلتا ہے کہ اب تو کبھی اس شخص سے ملاقات نہ ہو پائے گی تو دل سنبھالے نہیں سنبھلتا؟
ایسا لگتا ہے کہ ہماری زندگیوں کو کچھ اس طرح بنایا گیا ہے کہ یہ ‘اتفاقات’ ہمارے سامنے آتے ہیں اور پھر ہمارے سامنے دو آپشنز ہوتے ہیں۔ ایک اچھا اور ایک برا۔ دونوں میں سے کوئی بھی منتخب کرنے سے ہم ‘گیم’ کے اگلے لیول میں آجاتے ہیں۔ وہاں پھر ایک ‘اتفاق’ ہمارا منتظر ہوتا ہے۔ جو ہمارے پچھلے انتخاب کی بنیاد پر زیادہ اچھا یا زیادہ برا ہوتا ہے۔ جیسے ایک لڑکا کالج میں ایڈمشن لیتا ہے تو اس کی کلاس میں ہر طرح کے لڑکے ہوتے ہیں۔ کچھ پڑھنے والے ہوتے ہیں اور کچھ نکھٹو ہوتے ہیں۔ ان میں سے جن کی طرف بھی یہ دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا اس ‘انتخاب’ کی بنیاد پر اس کی اگلی زندگی کا، اگلے ‘اتفاقات’ کا دارومدار ہے۔ اچھے نمبروں سے پاس ہونے کا اتفاق، یا بری لت پڑ جانے کا اتفاق!۔۔۔
لیکن کبھی کبھار ہمارے پاس یہ آپشن نہیں ہوتا۔ کیا ہم میں سے کوئی چاہے گا کہ اپنے کسی پیارے کو اپنے سامنے آخری سانسیں لیتے ہوئے دیکھے؟ اپنے سامنے قبر میں اترتا دیکھے؟ لیکن قدرت کا نظام چلنا ہے۔ ہر کسی کی کہانی کا ایک وقت معین ہے۔ یہ دنیا امتحان کی جگہ ہے نا؟ تو جب کسی کا پرچہ ختم ہو جاتا ہے تو اس کو کمرہ امتحان میں نہیں بیٹھنے دیتے کہ دوسروں کا پرچہ متاثر ہوگا۔ ایسے وقت میں لگتا ہے کہ ہمارے پاس کوئی چوائس نہیں۔ جیسے ہمارا کوئی بس نہیں کسی چیز پر۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہمارا اختیار اس وقت ہمارے ردعمل پر ہوتا ہے۔ ہم چاہیں تو رو نے پیٹنے کو اپنا دستور بنا لیں۔ اپنی مظلومیت کا، محرومی کا رونا روئیں۔ جانے والے کو یاد کر کر کے اپنا پرچہ خراب کر لیں۔ یا اس کی یاد کو اپنے لیے ایک طاقت بنا لیں۔ اپنے رب سے، یعنی اس ہستی سے جو اس شخص کو ہماری زندگی میں لائی، باتیں کریں، سمجھنے کی کوشش کریں کہ اب کیا کرنا چاہیے۔
اور پھر کچھ لوگ تو ہماری زندگی میں آتے ہی اس وقت ہیں جب ان کا پرچہ ختم ہوچکا ہوتا ہے۔ نشان حیدر پانے والے لوگوں کو کتنے لوگ جانتے تھے؟ ان کی بہادری اور جرات کی داستان تو ان کے جانے کے بعد لوگوں تک پہنچی۔ شاہزیب خان کون تھا جس کی موت نے غالباً پہلی دفعہ ایک مفرور قاتل کو اس کے اثر رسوخ کے باوجود قانون ماننے پر مجبور کر دیا؟ لیسٹر شائر میں لگی آگ میں ایک شخص کا پورا خاندان چلا گیا، کون تھے وہ لوگ؟ کون تھا بوعزیزی جس کی خود کو آگ لگا لینے سے پہلے تیونس اور پھر مصر اور لیبیا میں تحریکیں پھوٹ بہیں؟ محمد الدراء نامی بارہ سال کا وہ بچہ جو گولیوں سے بچنے کی کوشش میں اپنے باپ کی پناہ میں چھپنا چاہتا تھا مگر پھر بھی موت نے اسے آلیا، اس ایک تصویر نے کتنے ہی لوگوں کو انقلابی بننے پر مجبور کر دیا!۔۔۔ مروۃ الشربینی نامی وہ گمنام مسلمہ جس کو بھری عدالت میں ایک سفاک شخص نے قتل کر دیا اور آج جسے دنیا ‘شہیدۃ الحجاب’ کے نام سے جانتی ہے۔ یا اسماء البلتاجی نامی وہ گمنام مصری لڑکی جس کو اس کی فوج نے ہی شہید کر دیا اور اس کے باپ کی عربی میں لکھی نظم ایک غیر عرب اردوغان کو نہ صرف رلا گئی بلکہ ہمیں ‘رابعہ’ کا نشان بھی دے گئی!۔۔۔
کبھی کبھی اسی طرح کسی انجانے شخص کے جانے کی خبر دل کو تڑپا جاتی ہے۔ کسی کی ‘بے وقت’ موت (کیا ایسی کوئی چیز ہوتی ہے؟)، کسی کی طویل تکلیف دہ بیماری، کسی کا ایکسیڈنٹ میں چل بسنا۔ میرا کلاس میٹ اعجاز جو ایک مہینے تک کومہ میں رہ کر ویسے ہی اپنے رب کے پاس چلا گیا مگر آج آٹھ سال بعد بھی یاد ہے۔ یا وہ دو لوگ جو ابھی حال ہی میں انتقال کر گئے اور جن سے کبھی زندگی میں ملاقات بھی نہ ہوئی، مگر جن کا وقت ‘وقت’ سے پہلے ہی پورا ہو گیا۔ انجان لوگوں کی موت پر تکلیف ہونا، یہ سب کیا ہے؟ کیوں ہمیں ایسی تکلیف ہوتی ہے؟
معاملہ یہ ہے کہ اللہ نے موت اور زندگی کو تخلیق کیا ہی اس لیے ہے کہ وہ دیکھے کہ کون بہترین طریقے پر عمل کرتا ہے (الملک) ۔ یہ بات لگتی عجیب ہے مگر ٹوٹا ہوا دل اللہ کی نعمتوں میں سے ہے۔ قدرت کی بہت سی نشانیاں ایسی ہیں جن کی سمجھ ہی اس وقت آتی ہے جب دل ٹوٹتا ہے۔ ٹوٹا ہوا دل بڑا قیمتی ہوتا ہے۔ چاہے وہ کسی بھی وجہ سے ٹوٹا ہو، لیکن دل کی وہ کیفیت ایسی ہوتی ہے جیسے ہل چلائی ہوئی زمین۔ جس میں اب کسان کو صرف بیج ڈالنا ہے اور پانی دینا ہے۔ ایسے وقت میں اللہ کی کتاب ان سب سوالوں کے جواب دے دیتی ہے جو ہمارے دل میں اس وقت ہوتے ہیں۔ اللہ کے نبیؐ کی، ان کے صحابہؓ کی سیرت میں کتنے ہی ایسے واقعات مل جائیں گے۔ کہیں عزیز ترین زوجہ اپنے رب کے پاس لوٹ گئیں تو کہیں ایک کے بعد ایک بیٹیاں اور بیٹے چلے گئے۔ کسی کے سات بیٹے شہید ہو گئے تو کسی کا شوہر، ماموں اور بھائی ایک ہی جنگ میں شہید ہو گئے۔ ایسے واقعات ہمارے دل پر ایک اچھا اثر چھوڑتے ہیں۔ وہ ایک اچھا بیج ہے جس سے انشاءاللہ فصل بھی اچھی ہو گی۔اور اگر ہم ایسے وقت میں جواب کسی غلط چیز مثلاً غلط فلسفوں، غلط تصورات یا ا س سے بھی بڑھ کر منشیات وغیرہ میں ڈھونڈیں گے تو ممکن ہے ہمیں سوالوں سے فرار مل جائے مگر جواب بہرحال نہیں ملے گا۔ اور غلط بیج الگ پڑ جائے گا۔
اور کبھی کبھار ایسے ہی راہ چلتے کچھ لوگ آپ کو زندگی کی کچھ ایسی حقیقتیں بتلا جاتے ہیں کہ کئی کتابیں گھول کے پینے میں بھی نہ مل سکیں۔ کوئی سبزی والا، کوئی جمعدار، کوئی مچھلی والا، کوئی موچی، کوئی چوکیدار، کوئی بھی شخص جو بظاہر ایک عام سا آدمی لگتا ہو مگر اس خاص وقت میں آپ کے دل کی کیفیات کے عین مطابق وہ ایسی بات کر دے کہ آپ اس کی شکل دیکھتے رہ جائیں اور وہ اپنا ٹھیا آگے بڑھا جائے۔ یہ سب ہماری زندگی کی کہانی کو آگے بڑھانے آتے ہیں۔ ان کی باتوں سے ہمیں اپنے فیصلے کرنے میں مدد ملتی ہے۔ وہ فیصلے جن سے ہم ایک نئے ‘اتفاق’ سے ملتے ہیں۔ ‘اتفاق’ جو کوئی چیز ہی نہیں !!!۔۔۔
چالیس سال کی سزا اور پاکستان زندہ باد!۔
بنی اسرائیل اللہ کی پسندیدہ قوم تھی۔ جب فرعون نے ان کو ظلم کا نشانہ بنایا ہوا تھا تو اس وقت اللہ نے ان کی مدد کے لیے حضرت موسیٰ ؑ جیسے پیغمبر کو بھیجا۔حضرت موسیٰ ؑ سے اللہ کو کتنی محبت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انؑ کا ذکر قرآن میں سب سے زیادہ ہے۔ ہر تین چار صفحہ بعد حضرت موسیٰ ؑ کا ذکر۔ اس قوم کو اللہ نے کیا کیا نہیں دیا۔ جتنی بھی مصیبتیں تھیں، اس کے بعد اللہ نے ان کے سامنے ان کے دشمن کو دریا میں غرق کر دیا۔ کیسا موقع ہو گا وہ بھی۔ جن کے بچوں کو فرعون نے مارا ہو گا وہ بھی دیکھ رہے ہونگے اسے ڈوبتے، فریاد کرتے، غرق ہوتے!!!۔
مگر جب اسی قوم کو اللہ کے نبیؑ نے کہا کہ ارض مقدس کو اللہ نے تمہیں عطا کر دیا ہے بس داخل ہو جاؤ اندر تو انہوں نے جواب دیا ‘جاؤ تم اور تمہارا رب اور قتال کرو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں’۔۔۔ تو اللہ نے اسی قوم کو، جس کے بارے میں فرمایا کہ ‘تمہیں تمام جہان والوں پر فضیلت دی تھی’، چالیس سال کے لیے صحرا میں بھٹکنے کو چھوڑ دیا۔ چالیس سال تک یہ بھٹکتے رہے صحرا میں اور بالآخر ان کوحضرت طالوت کی سربراہی میں حضرت داؤدؑ کے ذریعے فتح ملی۔
استاد محترم ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کہتے تھے کہ پاکستان بننے کے چالیس سال بعد انہیں یہ احساس ہوا کہ شاید ہمیں بھی اسی طرح کا کوئی موقع مل جائے۔ اس وقت انہوں نے اس معاملے میں کافی کام بھی کیا تھا۔جن میں ایک دو کتابوں کے علاوہ کچھ تحریکی کام بھی تھا۔
جب سے میں نے اس بارے میں سنا تھا تب سے یہی چیز میرے ذہن میں تھی کہ ہم نے تو دراصل ‘وہ’ والا کام کیا ہے 1971 میں۔ جب اسلام کے نام پر ملے ہوئے ملک کو ہم نے قومیت کے نام پر توڑ دیا۔ تب سے آج تک ذلت کا ایک دور ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا آتا ہے۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان ایک سیکولر ملک ہونا چاہئے اور نظریہ پاکستان نام کی کوئی چیز نہیں کیاان کو اتنی سی بات سمجھ نہیں آتی کہ ایک سیکولر ملک ہندوؤں کا اور ایک سیکولر ملک مسلمانوں کا دراصل سیکولر نہیں ہوسکتے۔ یہ بات یا تو ان کی کم عقلی ہے یا بد دیانتی، کوئی اور لفظ سمجھ نہیں آتا۔
پاکستان کے وجود میں آنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ اس زمین میں اس نام کا کوئی ملک نہیں تھا کبھی۔ ہماری زبان ایک نہیں تھی۔ ہماری نسلیں، بولیاں جدا تھیں۔ کون سی چیز تھی جو ہمیں جوڑتی تھی؟ اگر پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بنا تھا تو کیوں ایسا ہوا کہ وہاں سے صرف مسلمان گھرانوں نے ہجرت کی اور یہاں سے صرف ہندوؤں اور سکھوں نے؟؟؟ کیا کسی نے آج تک کسی ہندو کو دیکھا جو تقسیم کے وقت ہجرت کر کے پاکستان آیا ہو؟ یا کسی مسلمان کو دیکھا جو پاکستان میں شامل شدہ علاقوں سے بھارت گیا ہو؟
آزادی کے 67 سال بعد بھی ہمیں ایک دوسرے کو یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ ہم جس زمین میں رہتے ہیں اس کے رہنے کا صرف ایک سبب ہے اور وہ اسلام ہے۔ اسلام نکال دیں اس میں سے تو اس کی روح نکل جائے گی اور جب روح نکل جاتی ہے تو اس جسم کو جلد از جلد دفنا دیا جاتا ہے۔ ورنہ جسم سڑنا شروع ہو جاتا ہے۔
پاکستان زندہ باد کہہ دینے سے پاکستان زندہ نہیں ہو جائے گا۔ اس میں اس کی روح واپس پھونکنی پڑے گی۔ اس کی روح سوائے اسلام کے اور کچھ نہیں۔
تین کام کر لیں اور اس ملک کو واپس زندہ کر لیں۔
-ایک اس کو سود سے آزاد کرا لیں۔ اور اللہ اور رسول سے اس جنگ کو ختم کریں
-دو، عدالتی نظام میں اسلامی قوانین کو اولیت دے دیں۔ شریعت کورٹ کو ہی اصل کورٹ قرار دے دیں۔
-تین، معاشرہ میں اخلاقیات کو دوبارہ زندہ کریں۔ سماجی اخلاقیات بھی، معاشی بھی اور حکومتی بھی۔
یہ کام نہ کریں۔ اور ان کی تبلیغ کرنے والوں کا مذاق اڑا لیں تو کبھی کسی کے مذاق اڑانے سے تبلیغ کرنے والوں کا کوئی نقصان ہوا ہے؟
اور یہ کام کر لیں۔ تو ہو سکتا ہے کہ ہماری یہ سزا ختم ہو جائ جو اب چالیس سال سے زائد ہو چکی ہے!۔
اللہ پاکستان کی حفاظت کرے آمین!
leave a comment