Baigsaab's Blog

اباجی

Posted in Personal by baigsaab on April 22, 2015

آج پھر اباجی نے بستر میں پیشاب کر دیا تھا۔

عمر بھی تو بہت ہو گئی تھی ان کی۔ ستتر سال۔  شوگر الگ۔ بی پی الگ۔ اتنی چیزوں میں کبھی کبھی کوئی بھول بھی جاتا ہے کہ اباجی کا ‘پلاسٹک’ اپنی جگہ پر ہے کہ نہیں! بس یہی بھول گئی تھی خادمہ بھی۔بہو نے  خادمہ کے خوب لتے لیے کہ اس بار اس کے جہیز کا لحاف بھی کام آگیا تھا۔ ہنگامہ تو نہ کیا ۔  مگر اب کی بار اس نے میاں سے بات کرنے کی ٹھان لی تھی۔ سب تھک چکے تھے اب۔

“سنیئے مجھے کچھ بات کرنی ہے۔ ”
“جانتا ہوں،  اباجی کو اولڈہوم میں چھڑوانا چاہ رہی ہوگی پھر!”
“تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟”
“حرج؟؟ باپ ہے وہ میرا! اس کو اٹھا کر اس کوڑے دان میں ڈال کر آجاؤں؟ “

“کوڑے دان؟ خواب میں بھی نہیں ملتی ایسی جگہ! کتنے ایکڑ پر تھا وہ اولڈ ہوم؟ ہاں ۔۔۔ پورے پندرہ ایکڑ پر!   کیا نہیں تھا وہاں۔  ہمارے یہاں تو چھ گھنٹے بجلی جاتی ہے۔ وہاں؟ کوئی لوڈشیڈنگ نہیں؟ ہر بزرگ کا اپنا کمرہ۔  اپنا کھانے کا مینیو۔ اپنا خادم۔   جب چاہا اٹھ کر باغ میں چلے گئے۔ جب چاہا ساتھیوں سے گپیں لگالیں۔۔۔ میں تو کہتی ہوں ایسے ٹھاٹ تو بادشاہوں کے ہوتے ہیں”

“ہم تو نہیں ہونگے نا وہاں”

“تو آپ تو یہاں بھی نہیں ہوتے۔ ایک ایک ہفتہ گزر جاتا ہے بچے آپ کی شکل نہیں دیکھ پاتے۔ اباجی کو آخری دفعہ سلام کب کیا تھا آپ نے؟  “

“پھر بھی۔ یہ میرا گھر ہے۔ اپنے گھر سے اپنے باپ کو نکالوں گا تو دنیا تھوکے گی مجھ پر۔”

“دنیا کو تو رہنے ہی دیں آپ،  کسی کے پاس اتنا فالتو وقت نہیں کہ  دوسروں کی زندگیوں میں جھانکتا پھرے۔ آپ کے دونوں بھائی پہلے ہی  باہرہیں اور خود کے فیس کے پیسے پورے نہیں ہو پارہے، اباجی کو کیسے رکھیں گے؟ اور  وہ  ہم جو امیگریشن ویز ا کے لیئے انتظار کر رہے ہیں؟ وہ آگیا تو اباجی کو تو آپ لے جا نہیں سکتے ساتھ۔ ۔  پھر کیا کریں گےآپ ؟ میری مانیں ابھی اپنے سامنے سارے انتظام کروا لیں۔ تاکہ کوئی اونچ نیچ ہو جائے  تو  خود دیکھ لیں۔ “


اس کے ہاتھ میں اباجی کا فوٹو تھا جس میں وہ اس کے گریجوئیشن  کے دن امی کے ساتھ بہت ہی خوش لگ رہے تھے۔ اب دونوں ہی اس دنیا میں نہیں تھے۔ امی تو خیر دس سال پہلے ہی  چل بسی تھیں۔  اولڈ ہوم میں اباجی  بھی۔ ایک ہفتہ بھی  تو  نہ نکال پائے۔ خادم نے  چوتھے دن صبح ان کا کمرہ کھولا تو نیند میں ہی چل بسے تھے۔ بستر بالکل خشک تھا۔ غالباً  شروع رات میں ہی  انتقال کر گئے تھے۔آہٹ کی آواز آئی تو اس نے دیکھا سامنے دانیال کھڑا تھا۔ آٹھ سال کا تھا دانیال۔  دادا کا لاڈلا۔  اس کے ہاتھ میں اس کا چھوٹا بیگ تھا جو وہ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے خالہ کے گھر لے کر گیا تھا۔

“یہ تم کہاں جارہے ہو؟ “

“آپ بھیجیں گے نا”

“میں کہاں بھیجوں گا”

“جہاں دادا کو بھیجا تھا”

“کیوں؟”

“!!-وہ۔۔۔۔ رات کو سوتے  میں۔ میں نے بلینکٹ خراب کر دیا تھا”

Tagged with: , ,

2 Responses

Subscribe to comments with RSS.

  1. Iftikhar Ajmal Bhopal said, on April 22, 2015 at 09:57

    ایسی تحریر پڑھ کر سوائے آنسو بہانے کے اور کیا کیا جا سکتا ہے ۔ جدیدیت ہماری قوم کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے اور افراد اس سے لُطف اندوز ہوتے چلے جا رہے ہیں شاید اذیت پسند ہو چکے ہیں ۔ میں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہون کہ کیا مرد کی عقل پر عورت تالا لگا دیتی ہے یا عورت بغیر باپ کے پیدا ہوتی ہے ؟ اللہ نے مجھ پر اپنا کرم رکھا میرے والد صاحب مفلوج ہونے کے بعد وفات تک 3 سال میری بیوی نے اُن کی خدمت کی

    • baigsaab said, on April 23, 2015 at 19:36

      افتخار صاحب، آپ اور آپ کی اہلیہ خوش نصیب رہے کہ ان کی خدمت کر سکے۔ یہ توفیق ہر کسی کو ملتی نہیں۔ اس تحریر کا پس منظر بھی کچھ یہی ہے کہ لوگ اپنی تسلی کرنے کے لیے کس کس طرح اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں۔ نہ ہر عورت اس طرح سوچ رکھتی ہے، نہ ہر مرد ایسا کرتا ہے۔ لیکن اس تیز رفتار دور میں کہ جب بچوں کی تعلیم اور اپنا سوشل اسٹیٹس اتنی اہمیت اختیار کر گئی ہے، بہت سی بہت ہی ضروری چیزیں جو بظاہر ہمارے لیے فائدہ مند نہیں، ان کو ہم میں سے اکثر اتنی اہمیت دے نہیں پاتے۔


Leave a comment