Baigsaab's Blog

یہ گاڑی یوں نہیں چلنے کی

Posted in Rants by baigsaab on June 29, 2013

کہتے ہیں  جب برا وقت آتا ہے تو اونٹ پر بیٹھے شخص کو بھی کتا کاٹ لیتا ہے ، ہماری شامت اعمال ہمیں کیوں اور کس طرح پاکستانی ٹرین میں سفر پر جبراً  آمادہ کر گئی یہ ایک داستان کا محتاج ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ ہم سب دوستوں نے  ہفتہ وار تعطیل پر اجتماعی طور پر اپنے ایک دوست کے گاؤں  جانے کا فیصلہ کیا۔  سفر بمعہ اہل و عیال ہونا تھا، چنانچہ سب کے حصہ میں کچھ نہ کچھ کام آئے ، ہمارے متھے پڑا ٹرین کے ٹکٹوں کا حصول۔   ٹرین کے اسفار کے اپنے سابقہ تلخ  تجربات کی بنیاد پر ہم  مطمئن تو نہ تھے مگر اس کے سوا اور کوئی دوسری صورت بن نہیں پا رہی تھی کہ سب ساتھ جا پائیں۔ سفر کی تیاریوں کے آغاز میں ہی ایسے شواہد ملنا شروع ہو گئے تھے کہ آگے گڑبڑ ہو سکتی ہے ۔ مثلاً   جب ہم معلومات کے حصول کے لیے اسٹیشن گئے تو ہمارے آگے موجود صاحب نے اندر موجود خاتون سے کچھ سوالات ایک دو دفعہ دوبارہ پوچھ لیے۔  ایک دو مرتبہ تو خاتون نے جواب دیا مگر اس کے بعد شاید ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔   اس شخص کو مخاطب کر کے ایک کراری آواز میں فرمایا “ارے تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے سمجھ میں نہیں آتی بات؟” اس شخص نے پلٹ کر جواب دیا تو   ان کے صبر کا وہ ننھا سا پیمانہ پانی کی اس ٹنکی کی طرح بہنے لگا جس کو بھرنے والی موٹر چلا کر لوگ  گرمی کی چھٹیاں منانے چلے جائیں۔ ہم نے اپنی طبیعت کے برخلاف اس موقع پر کچھ فہمائش کرنے کی کوشش کی تو ہمیں بھی آڑے ہاتھوں لے لیا جس کا فدوی نے تو یہی مطلب لیا کہ ان کی کھڑکی سے ذلت و رسوائی تو مل سکتی ہے، معلومات نہیں۔ ان کے ممکنہ متعلقین حضرات سے دلی ہمدردی رکھتے  ہوئی ہم نے برابر والی کھڑکی سے رجوع کیا۔

  وہاں سے واپسی پر ہم نے مزید معلومات کے لیے  ریلوے انکوائری فون کیا ، وہاں موجود صاحب نے ہمیں معلومات کے ساتھ اپنا ذاتی نمبر بھی دیا   (جس پر وہ ہماری فون کال کے دوران ہمیں ہولڈ کا کہہ کر اپنی مادری زبان میں  اپنے کسی واقف سے گفتگو بھی کرتے رہے) اور کہا کہ ٹکٹ کا کوئی بھی مسئلہ ہو وہ نہایت  آسانی سے حل فرما دیں گے۔   ظاہر ہے ہمارا رابطہ کسی نہ کسی صورت میں مختلف اداروں کی  کسٹمر سروس سے پڑتا ہی رہتا ہے،  یاد مگر نہیں پڑتا کہ کبھی کسی نے اپنے ادارے کی جڑیں ایسے کاٹی ہوں۔ صاف نظر آرہا تھا کہ یہاں لوگوں کو دو چیزوں کا ڈر بالکل نہیں۔ ایک محاسبہ کا  اور دوسرا برخاستگی کا، سیاسی بھرتیوں کے کمالات ہمارے سامنے  جلوہ نما تھے اور آنے والے وقت کے آئینہ دار۔ مگر یہ سوچ کر کہ اب تو اوکھلی میں سر دے ہی دیا ہے، ہم نے کافی تگ و دو کے بعد پرائیویٹ ٹرین کے ٹکٹ کروا لیے۔ یہ سوچ کر کہ پرائیویٹ ہے تو بہت ممکن ہے بہتر بھی ہو۔

سفر کی ابتداء بلاشبہ اچھی تھی۔ ٹرین کی وہ تمام برائیاں جو  ہمیں یاد تھیں وہ اس مرتبہ نہ تھیں مثلاً جائے ضرور کی حالت ایسی  ناگفتہ بہ نہ تھی، وقت کی پابندی ہو رہی تھی یعنی ہر اسٹیشن پر  اس کے شیڈول کے مطابق آمد اور روانگی۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا  یہاں تک کہ  روہڑی اسٹیشن آگیا۔  گاڑی  وہاں خلاف توقع کچھ زیادہ رک گئی۔ تھوڑی دیر میں آوازیں بلند ہوئیں کہ جس ڈبے میں ہم موجود تھے اس میں کچھ خرابی  ہو گئی ہے جس کی وجہ سے اس کو گاڑی سے الگ کرنا پڑے گا۔ جلدی جلدی سارا سامان  اور افراد کو اتارا  اور ٹرین ہمیں چھوڑ کر برابر کے ٹریک پر چلی گئی۔ اتنی دیر میں شور بلند ہوا کہ ہمارے ڈبے کے مسافروں کو اب لوئر اے سی میں جگہ دی جائے گی۔ اپنے پورے سامان اور بچوں کے ساتھ ٹرین کے دوسرے حصہ تک جب ہم پہنچے تو وہاں موجود ٹرین کے سپروائزر صاحب نے اس افواہ کی نہ صرف تردید کی بلکہ یہ انکشاف بھی کیا  کہ کوئی نیا ڈبہ نہیں لگے گا ساتھ ہی ہمیں یہ بھی بتایا کہ ہماری  بائیس برتھوں کے  عوض اب ہمیں محض چھ برتھیں ملیں گی۔میرے خیال میں اس سوال کو کہ بائیس افراد چھ برتھوں میں کیسے سمائیں گے اگر میٹرک کے ریاضی کے، یا ایم بی اے کے ہیومن ریسورس کے امتحان میں رکھا جاتا تو تمام طلبہ  بری طرح فیل ہوجاتے۔ بہرحال ٹرین کے عملے نے ہماری مدد کرتے ہوئے سامان ہمارے ساتھ اٹھوا کر واپس ٹرین کے اگلے حصہ کی  طرف سفر کیا۔ اور ہمیں انجن کے پچھلے ڈبے میں باقی مسافروں کے ساتھ ٹھونس دیا۔ باقی مسافروں نے  ہمارے ساتھ کافی تعاون کیا  جو کہ  نشستوں میں مدد کے ساتھ ساتھ ریلوے کے منتطمین کے غیر مرئی بخیے ادھیڑنے میں بھی شامل تھا۔   ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر کے بعد  ہم  دوبارہ روانہ ہوئے اور اس کے دو گھنٹے  بعد اپنی منزل مقصود تک پہنچے۔اس سارے واقعے کے باوجود ہمارا دل اس پرائیویٹ ٹرین سے کافی حد تک صاف رہا۔  وجہ اس کی یہ تھی کہ جو کچھ ان کے  ہاتھ میں تھا وہ انہوں نے کیا اور قدرے وقت پر  ہمیں پہنچا دیا۔

واپسی کے ہمارے ٹکٹ اسی ٹرین کی واپسی کی گاڑی کے تھے ۔ وقت مقررہ سے کافی پہلے ہم اسٹیشن پر پہنچے تو پتہ چلا کہ ٹرین کی آمد میں دو گھنٹے کی تاخیر ہے۔ خیر کسی نہ کسی طرح وہ دو گھنٹے گذارے جو یقیناً اس سے بہت دیر میں گذرے جتنی ہم کو یہ سطر لکھنے میں لگی۔ دو گھنٹے بعد ہم واپس جب  معلومات کے لیے انہی صاحب سے ملے تو ان کا  کہنا تھا کہ  ٹرین کے انجن میں کوئی خرابی ہوئی تھی  جس کی وجہ سے روہڑی اسٹیشن سے دوسر اانجن بھیجا گیا۔ مگر اس میں بھی کوئی خرابی ہو گئی جس کی وجہ سے  اب  ملتان سے ایک اور انجن بھیجا جا رہا ہے۔ اس سارے عمل میں ان کے مطابق ڈیڑھ سے دو گھنٹے مزید لگنے تھے۔ ان سے مزید استفسار کرنے پر پتہ یہ چلا کہ وہ دو گھنٹے بھی ان کی اپنی سمجھ کے مطابق ہے ورنہ اس سے زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ اس کے بعد یقیناً ہم لوگوں نے وہی کیا جو ہم کو پہلے ہی کر لینا چاہیے تھا۔ یعنی ٹکٹ کینسل کروا کر بس سے روانگی۔ بس کا سفر بھی کیا سفر تھا ۔ ویڈیو اسکرین پر آغاز میں نعتیں لگی تھیں ۔ تھوڑی دیر میں نعتیں قوالیوں میں تبدیل ہو گئیں اور اگلا شہر آتے آتے قوالیاں انڈین گانوں میں تبدیل ہو گئیں۔ گویا مستحب یا مباح سے لے کر بدعت تک اور بدعت سے لے کر حرام مطلق تک کا سفر ہماری آنکھوں کے سامنے طے ہو گیا۔ واضح رہے کہ بالکل یہی طریقہ ہمارے ریڈیو اور ٹی وی چینل بھی اپناتے ہیں۔ جب اس خرافات پر ہمارے ساتھی نے کنڈکٹر کو ٹوکا تو اس نے نہایت خشمگیں نگاہوں سے اسے دیکھا گویا کہہ رہا ہو کہ میاں اس ویڈیو کے چکر میں تو لوگ چڑھتے ہیں ہماری بس میں۔ گانے بہرحال  بند ہو گئے۔ آٹھ گھنٹے کی تاخیر سے جب ہم واپس کراچی پہنچے تو صبح کے آٹھ بج رہے تھے۔ ہمارے بعض ساتھیوں کو دفتر  بھی جانا پڑا  ، آپ خود اندازہ کر لیجیے کہ اس دن کام کا معیار کیا رہا ہو گا۔

کیا ہمارے ٹرین کے نظام کی خرابیاں کوئی حالیہ امر ہے؟ کیا یہ  تمام مسائل حل کرنا بہت مشکل ہے؟ نہیں ، یقیناً نہیں! یہ پچھلے 5 سال کی بات نہیں ہے جس  میں ہمارے سابق وزیر صاحب ریلوے میں اربوں روپے کے ‘مبینہ ‘غبن کے مرتکب ہوئے ہیں اورلوگ ریلوے کی زمینیں، انجن حتی     ٰ کہ پٹریاں تک ‘مبینہ طور پر’بیچ گئے۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے ہم نے تو ٹرین کے سفر میں تاخیر ہی دیکھی ہے۔ پاکستانی ریلوے کا نظام  دنیا کے ناقص ترین نظاموں میں سے ہے اور  اس کے لیے کسی سروے کی ضرورت نہیں ہے۔ ریلوے اسٹیشن شہر کے بد ترین مقامات میں سے ایک ہوتا ہے جہاں ایک سے ایک اٹھائی گیرا اپنے فن کے مظاہرے کے لیے موجود ہوتا ہے۔ اور ریلوے اسٹیشن کے بیت الخلاء کے بارے میں کیا کہیں، بس یہی کہیں گے ان کے خیال سے ہی بندہ قبض کی دعا کرتا رہتا ہے۔

  ٹرینوں کی تاخیر کی عموماً ایک ہی وجہ ہوتی ہے، فنی خرابی۔ پرانی پھٹیچر گاڑیوں سے ان کی استطاعت سے بڑھ کر کام لیا جا رہا ہے۔ سرکاری گاڑیوں کا وہ حال ہے جو گنے سے رس نکالنے کے بعد اس کے پھوک کا ہو جاتا ہے۔ پرائیویٹ گاڑیوں کو انجن اور انتظامی سہولیات پاکستان ریلوے دیتی ہے جس کی وجہ سے ان کی کارکردگی  بھی غیر تسلی بخش ہے۔ ہماری اطلاع کے مطابق اکثر گاڑیوں میں مرمت کا کام اتنا بڑا نہیں ہے مگر کوئی پرسان حال تو ہو۔ ہمارے اکثر اداروں کی طرح ریلوے کا مسئلہ بھی قیادت کا فقدان ہے۔ لٹیروں ، چوروں  اور اٹھائی گیروں کے ہاتھ میں مملکت کا اتنا اہم اثاثہ دے دیں گے تو وہ اس کا وہی حال کریں گے جو گاؤں کے کتے اجنبی آدمی کا کرتے ہیں۔ یہ بھی بات کہی جاتی ہے  ٹرین کی ناقص کارکردگی کے پیچھے یہ   ٹرانسپورٹ مافیا ہی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ضرورت سے زیادہ بھرتیاں اور نا اہل لوگوں کو محض ان کی زبان یا پارٹی وابستگی کی بنیاد پر ملازمت دی  گئی ہے۔اور کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ ایک بہت بڑے سیاسی لیڈر اور سابق وزیر اعظم جن کو پھانسی کی سزا دی گئی تھی وہ ابھی بھی زندہ ہیں!

  ٹرین سے سفر کرنے والے اکثر لوگوں کے پاس ہمیشہ وہ وسائل نہیں ہوتےجو الحمدللہ ہمیں میسر تھے، سفر میں تو ویسے بھی اچھے اچھے لوگ مجبور ہو جاتے ہیں۔ اکثر لوگ ٹکٹ خرید کر کسی نہ کسی وجہ سے مجبور ہو تے ہیں کہ اب اسی ٹرین سے سفر کریں جس کا ٹکٹ لیا ہے۔ ہم جب ٹکٹ کینسل کروا رہے تھے تو ان صاحب نے کئی دفعہ یہ  بات کہی کہ آپ تھوڑا سا انتظار کر لیں ٹرین آئے گی ضرور۔ اب اس احمقانہ بات کا بھلا کیا جواب دیا جائے؟ لیکن جواب دے کر کریں بھی کیا، کوئی سننے والا تو ہو۔ بہرحال یہ بات تو طے ہے کہ اب ہماری  توبہ کہ پاکستانی ٹرین سے اس کی موجودہ حالت میں دوبارہ سفر کریں چاہے کوئی کتنا ہی مجبور کر لے کیونکہ یہ گاڑی اب اس طرح چلنے والی نہیں ہے!